رسائی کے لنکس

کوئٹہ ویڈیو اسکینڈل؛ 'مجرموں کو عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں تھیں'


"ویڈیوز کیس میں آنے والا فیصلہ ملوث گروہ کو بچانے کے مترادف ہے یہ نہ صرف ہزارہ کمیونٹی بلکہ بلوچستان بھر کے عوام کو بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔"

یہ کہنا ہے کوئٹہ کی سماجی کارکن حمیدہ ہزارہ کا جو نازیبا ویڈیوز اسکینڈل کیس میں عدالت سے آنے والے فیصلے پر اپنے ردِعمل میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کر رہی تھیں۔

حمیدہ ہزارہ کہتی ہیں کہ "ملزمان کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تھی مگر ہمیں افسوس ہے کہ اگر ملزمان کو اس طرح بچانے کی کوشش کی جاتی رہی تو مستقبل میں خواتین کو ایسے درندوں سے بچانا ناممکن ہو گا۔"

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جج نے کم عمر لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنا کر انہیں ہراساں اور بلیک میل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ملزم ہدایت اللہ خلجی کو مجموعی طور پر چھ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ایک اور ملزم خلیل کو جرم ثابت ہونے پر تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا حکم سنایا گیا تھا۔

لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکن عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ثنا درانی نے ویڈیو اسکینڈل کے مجرموں کو کم سزا پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ثنا درانی نے کہا کہ یہ قابلِ افسوس بات ہے کہ ملزمان کے قبضے سے ویڈیوز اور تمام شواہد برآمد ہونے اور ہائی پروفائل کیس بننے کے باوجود ملزمان کو بہت کم سزا دی گئی۔

ثنا درانی کہتی ہیں کہ ملزمان کو اس بنا پر کم سزا دینا کہ متاثرہ خواتین مقدمے میں پیش نہیں ہوئیں سراسر زیادتی ہے۔ ایسے معاملات میں ریاست پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود اقدامات اٹھائے۔

پاکستان: عدالتی نظام میں فرانزک سائنس کیسے مدد کر رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں خواتین کے لیے انصاف تک رسائی بہت مشکل ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کو برسوں لگ جاتے ہیں اس کے باوجود انصاف نہیں ملتا۔

ویڈیو اسکینڈل میں کب کیا ہوا؟

سن 2021 میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک لڑکی کو اپنے مقابل ایک شخص سے معافیاں مانگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں لڑکی اس شخص سے کہتی ہیں کہ "ماما مجھے معاف کریں میں آپ کی نوکر ہوں۔"

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئٹہ پولیس حرکت میں آ گئی تھی اور پولیس کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ وائرل ویڈیو ان دو بہنوں کی ہے جن کی والدہ نے کوئٹہ میں قائد آباد تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

پولیس نے اس واقعے میں ہدایت اللہ خلجی اور ان کے ایک بھائی کو خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کی نازیبا ویڈیوز بنانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

پولیس نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزم ہدایت اللہ کے قبضے سے موبائل فونز، ٹیب اور لیپ ٹاپس برآمد کیے گئے ہیں جن میں خواتین کی نازیبا ویڈیوز موجود ہیں۔

'ملزمان کے موبائل فون کی فارنزک رپورٹ میں 254 ویڈیوز حقیقی نکلیں'

پنجاب فارنزک ایجنسی نے خواتین کی نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے والے ملزم ہدایت خلجی کے موبائل کی فارنزک رپورٹ جاری کی جس میں 280 ویڈیوز میں سے 254 حقیقی نکلیں۔

فروری 2022 میں ایک اور ویڈیو منظر پر آئی جس میں دونوں خواتین نے اپنے اغوا کی تردید کر دی۔

مبینہ طور پر مغوی لڑکیوں نے ویڈیو میں کہا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا ہے وہ اپنی والدہ اور اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اغوا کے الزام میں ہدایت خلجی اور خلیل خلجی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے افغانستان جانے میں مذکورہ افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لڑکیوں کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی والدہ پر دباؤ ڈال کر ہدایت اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

بلوچستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن حمید نور سجھتی ہیں کہ ملزمان کو سزا ملنا خوش آئند ہے، لیکن اتنی کم سزا ملنے سے دیگر ملزمان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں متاثرہ خواتین کی ویڈیوز سامنے آئیں تھیں اور انہوں نے ملزمان کے خلاف خود مقدمہ بھی درج کرایا تھا۔ لیکن ملزمان کے انتہائی با اثر ہونے کے باعث متاثرین پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور بعد میں ان کے تردیدی بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG