رسائی کے لنکس

حکومتی عہدیدار خارجہ پالیسی میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کریں: حسین حقانی


حسین حقانی (فائل فوٹو)
حسین حقانی (فائل فوٹو)

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کو ’’ملک میں اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے توجہ ہٹانے اور قربانی کا بکرا ڈھونڈنے کی بجائے ناکام پالیسیوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔‘‘

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام نہیں کر رہے۔

یہ بات انہوں نے منگل کو وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی طرف سے دیئے گئے ایک بیان کے جواب میں کہی جس میں انہوں نے نام لیے بغیر کہا تھا کہ پاکستان کا ایک سابق ’’سفیر ایسا تھا جو آج کھل کر پاکستان کے خلاف لابئنگ کر رہا ہے اور ہماری مشکلات جو ہیں اس میں اضافہ کر رہا ہے۔‘‘

اس کے جواب میں حسین حقانی نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ سرتاج عزیز نے کسی کا نام نہیں لیا مگر انہیں معلوم ہے کہ وہ انہی کے بارے میں بات کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی ایک اور وزیر نے ان پر اسی طرح کے الزامات عائد کیے تھے۔

حسین حقانی نے کہا کہ انہوں نے کبھی لابئنگ نہیں کی اور جسے وہ پاکستان کا مفاد سمجھتے ہیں اس کے خلاف کبھی لابئنگ نہیں کریں گے۔

تاہم ان کا اصرار تھا کہ وہ پاکستان کے مفادات کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔

جنوری میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان کے ایک سابق سفیر F-16 طیاروں کی پاکستان کو فروخت روکنے کے لیے لابئنگ کر رہے ہیں۔

حسین حقانی نے کہا کہ ’’میں اب امریکہ میں ایک سکالر ہوں نا کہ لابسٹ۔‘‘

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کو ’’ملک میں اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے توجہ ہٹانے اور قربانی کا بکرا ڈھونڈنے کی بجائے ناکام پالیسیوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سکالر کی حیثیت سے ان کی رائے میں اتنا وزن ہے کہ امریکی پالیسی اس سے متاثر ہو رہی ہے تو پاکستان کی وزارت خارجہ کو ان سے ’’اچھوتوں‘‘ جیسا سلوک کرنے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان کے خلاف جھوٹے الزماات عائد کرنے کی بجائے ان کی رائے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے عبدالقدیر خان نیٹ ورک بنایا اور نہ طالبان کی حمایت کی ’’اس لیے مجھ پر ان پالیسی کی ناکامیوں کا الزام عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔‘‘

سفیر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد حسین حقانی نے ’میگنیفیسنٹ ڈیلوژنز‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک "منفی تجزیہ" پیش کیا تھا۔

اس کے علاوہ وہ امریکی اخبارات میں مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں جن میں عموماً پاکستان کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے۔

حیسن حقانی کا کہنا تھا انہوں نے تین کتابیں تحریر کی ہیں جس میں انہوں نے پاکستان کی اُن پالیسیوں پر تنقید کی جن سے ان کے بقول پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی طرف سے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اسے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے۔

اس کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ’’جو ہمارے قومی مفادات ہیں، جو ہمارے سکیورٹی کے مفادات ہیں، جو ہمارا امیج ہے، اس پہ اگر بلاوجہ خود ہی سوالیہ نشان لگائیں گے تو دنیا سے کیا توقع کریں گے کہ وہ آپ کی بات پہ یقین کرے۔‘‘

XS
SM
MD
LG