رسائی کے لنکس

نوبیل نہیں، دل جیت لیے ۔۔ ’میں ہوں ملالہ‘


ایک دن میں نے نرس سے پوچھا کہ میرے پیٹ پر یہ ابھری ہوئی چیز کیا ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنا پیٹ بھاری لگتا تھا۔ نرس نے جواب دیا کہ یہ تمہاری کھوپڑی کا اوپری حصہ ہے۔ یہ جواب سن کر میں ششدر رہ گئی

کراچی ۔۔۔ آج کا دن ملالہ یوسف زئی کے لئے اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے بھی تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ملالہ نوبل انعام نہیں جیت سکیں۔ لیکن، کروڑوں جیت لئے ہیں۔ اتنے دل شاید انہوں نے بھی نہ جیتے ہوں جنہیں امن کا نوبل ملا ہے۔

یہ سدا کہ ’میں ہوں ۔۔ملالہ‘ واقعی درست ثابت ہوئی ہے۔ ملالہ نے گل مکئی کے نام سے ڈائری کے اوراق کیا لکھے، گویا پوری ایک تاریخ رقم کردی۔ ایسی تاریخ جو پاکستانی معاشرے کے بہت سے پوشیدہ پہلووٴں اور کرخت چہروں کو سامنے لاتی ہے۔

ملالہ یوسف زئی پاکستان کی کروڑوں لڑکیوں میں سب سےخوش قسمت ثابت ہوئی ہیں۔ صرف ایک سال میں انہوں نے وہ عالمی اعزازات اور شہرت حاصل کی جس کی لوگ عمر بھر تمنا کرتے ہیں۔ 9 اکتوبر، 2012ء سے 11اکتوبر 2013ء تک کی ایک سالہ مدت میں یہی دو تاریخیں ان کے لئے اہم ترین ثابت ہوئیں۔

وہ دنیا میں جہاں جہاں گئیں، جس اسٹیج پر کھڑی ہوئیں وہاں ملالہ یوسف سے پہلے پاکستان کا نام پکارا گیا۔ لہذا، جو لوگ ملالہ پر تنقید کرتے ہیں وہ اتنا ضرور سمجھیں کہ پاکستان میں کئی سالوں سے موجود ’سخت ترین قحط‘ اور ’حبس کے موسم‘ میں ملالہ پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ بن کر سامنے آئی ہیں۔

گذشتہ ہفتے ہی ملالہ کی یادداشت پر مشتمل کتاب ’میں ملالہ ہوں‘ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے 9 اکتوبر کے حادثے کا دکھ جن الفاظ میں بیان کیا ہے وہ انسان کا کلیجہ منہ کو لے آتا ہے۔

وہ لکھتی ہیں، ’نو اکتوبر 2012ء ۔۔یہ وہ دن تھا جب ان کے ساتھ زندگی کا نہایت بھیانک واقعہ پیش آیا۔ وہ اپنے آبائی گھر سے وین کے ذریعے اسکول جانے کے لئے نکلی تھیں ۔اسکول وین کا یہ سفر ابھی جاری ہی تھا کہ راستے میں ایک شخص نے وین کے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا اور کچھ پوچھنے لگا کہ اسی دوران ایک اور شخص وہاں آگیا جس نے کپڑے سے اپنا چہرہ چھیاپا ہوا تھا۔ اس نے لڑکیوں کے قریب آتے ہی سوال کیا کہ ملالہ کون ہے؟‘

اس سوال پر وین میں موجود لڑکیوں نے ملالہ کی طرف دیکھا جو دراصل اس کے سوال کا خاموش جواب تھا۔ اس نے بندوق نکالی اور گولیاں برسانا شروع کردیں۔ فائرنگ کرنے والا شخص 20سال سے زیادہ عمر کا نہیں تھا۔ اس کی فائرنگ سے ملالہ، اس کی دو سہیلیاں بھی زخمی ہوگئیں۔ ایک گولی ملالہ کی آنکھ کے قریب سے ہوتی ہوئی سر میں پیوست ہوگئی ۔اس گولی کی تکلیف ملالہ برداشت نہ کرسکی اور بے ہوش ہوگئی۔

انہیں علاج کے لئے پہلے سی ایم ایچ پشاور لے جایا گیا جہاں آپریشن کے لئے ان کے سر میں لگی گولی نکالی گئی۔ اس کے بعد مزید علاج کے لئے راولپنڈی لے جایا گیا۔ لیکن، آخر کار سرجری کے لئے انہیں برمنگھم کے کوئن الزبتھ اسپتال لے جانا پڑا۔

ملالہ کو اس واقعے کے چھ دن بعد ہوش آیا۔ ہوش آنے پر انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اس کے بارے میں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، ’بے ہوشی کے بعد آنکھ کھولی تو ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ مجھے بس یہ پتا تھا کہ میں اپنے ملک میں نہیں ہوں، کیوں کہ آس پاس موجود لوگ انگلش بول رہے تھے۔میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن گردن میں لگی ٹیوب کی وجہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی، بائیں آنکھ کی نظر ’بہت دھندلی تھی اور مجھے ہر کسی کی چار چار آنکھیں اور دو دو ناک نظر آ رہے تھے۔‘

میرے ذہن میں ہر قسم کے سوالات گھوم رہے تھے۔ میں کون ہوں؟ مجھے یہاں کون لایا ہے؟ میرے والدین کہاں ہیں؟ کیا میرے والد زندہ ہیں؟ میں بہت خوفزدہ تھی۔ مجھے صرف ایک بات کا احساس تھا کہ اللہ نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے حروفِ تہجی کا بورڈ دیا جس کی مدد سے میں نے ’کنٹری‘ اور ’فادر‘ کے ہجے کیے۔

نرس نے مجھے کہا کہ میں برمنگھم میں ہوں لیکن مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کہاں ہے۔ نرسیں مجھے کچھ نہیں بتا رہی تھیں، حتیٰ کہ میرا نام بھی نہیں۔

میرے سر میں اس قدر شدید درد تھا کہ انجکشن بھی اسے روکنے سے قاصر تھے، دائیں کان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور محسوس ہو رہا تھا کہ چہرے کا دایاں حصہ مناسب طریقے سے حرکت نہیں کر رہا۔میں مسکرا بھی نہیں سکتی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اسپتال کا خرچ کون برداشت کرے گا، مجھے ڈر تھا کہ ڈاکٹرز مجھے اسپتال سے باہر نکال دیں گے کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔

ایک دن میں نے نرس سے پوچھا کہ میرے پیٹ پر یہ ابھری ہوئی چیز کیا ہے، اس کی وجہ سے مجھے اپنا پیٹ بھاری لگتا تھا۔ نرس نے جواب دیا کہ یہ تمہاری کھوپڑی کا اوپری حصہ ہے۔ یہ جواب سن کر میں ششدہ رہ گئی۔

میرے والدین حملے کے16 دن بعد برطانیہ پہنچے۔ اس دوران میں ایک دن بھی نہیں روئی، درد کی شدت سے تڑپتی رہی لیکن روئی نہیں۔ سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا مگر والدین کو دیکھ کر میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی اور ان سے لپٹ کر اتنا روئی کہ دل کا سب غبار نکل گیا۔

یہ وہی دل خراش واقعہ ہے جس نے ملالہ کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اس واقعے کے سبب ہی آج پوری دنیا ملالہ کو سلام کرتی ہے، دل میں بیٹھاتی ہے لیکن دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملالہ کیس تھانہ سیدوشریف میں درج کیاگیا تھا۔ لیکن، پراسیکیوشن نے نامکمل تفتیش کی بنا پرکیس واپس کردیا تھا۔ اس کے بعد اس کیس کی حتمی رپورٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔ پولیس ذرائع کاکہناہے کہ کیس کی تفتیش کامیابی سے فائل ہوچکی ہے لیکن ابھی تک کسی کی گرفتاری یا عدالت میں پیش کردہ چالان کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

اس کیس کا فیصلہ کب ہوگا۔ ہوگا بھی یا نہیں کون جانے۔۔ لیکن، ملالہ نے اپنے مجرم کو معاف کردیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاوہ اس لڑکے سے بدلہ لیں گی جس پر اس نے حملہ کیا تھا تو ملالہ کا جواب تھا۔۔”نہیں!!! وہ اس لڑکے کو سوئی کے برابربھی نقصان پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتیں کیونکہ وہ امن اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں ۔

گیارہ اکتوبر 2013ء
اگر 9اکتوبر کا دن ملالہ کی زندگی کا بدترین دن تھا تو گیارہ اکتوبر 2013ء کا دن ان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کے لئے یاد گار ثابت ہوگا۔انہیں نوبل انعام نہیں ملا اس کے باوجود دنیا بھر میں انہوں نے اپنے چاہنے والے جس بڑی تعداد میں پیدا کئے ہیں۔۔جتنے زیادہ دل جیتے ہیں۔۔ان کی تعداد صرف ایک نوبل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

ملالہ کا کہنا ہے، ’نوبل انعام کے لئے نامزد ہونا ہی ان کے لئے بڑا اعزاز تھا۔ اصل اہمیت اس چیز کی ہے کہ دنیا بھر سے لوگ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، پاکستان اور بھارت نے ان کو سپورٹ کیا۔۔۔ لگتا یوں ہے کہ مجھے پوری دنیا کے لوگوں نے نامزد کیا تھا۔

ملالہ کو ملنے والے کچھ اور عالمی اعزازات اور ایوارڈز
یورپی یونین کی جانب سے ملنے والا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ
ستارہ شجاعت
بچوں کا بین الاقوامی امن کا انعام
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ’ضمیر کی سفیر
اردن کی ملکہ رانیا کی جانب سے ملنے والا گلوبل سٹیزن ایوارڈ
ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ہومینیٹیرین ایوارڈ
اقوام متحدہ کی جانب سے’ملالہ ڈے‘ کا انعقاد
ملالہ کو اپنی16ویں سالگرہ پر اقوام متحدہ میں خطاب کا موقع
ٹائم میگزین نے ملالہ کو 2012 کی موثر ترین شخصیات میں شامل کیا
ملالہ کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کی اشاعت
ملالہ آئندہ ہفتے بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ کی طرف سے استقبالیہ میں بھی شرکت کریں گی۔ یہ شرکت بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
XS
SM
MD
LG