صوبائی دارالحکومت میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ایک ترجمان امان اللہ نے بتایا ہے کہ عالمی تنظیم کو ٹیلی فون پر ملنے والی دھمکیوں کے بعد ادارے کے عملے کی نقل وحرکت محدود کرنے کے علاوہ بعض امدادی سرگرمیوں میں بھی عارضی کمی کی گئی ہے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پولیس کو دھمکی آمیز فون کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کر دی گئی ہیں اور تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے وہ اس معاملے پر مزید خیال آرائی نہیں کر نا چاہتے۔ آئی سی آر سی کے ترجمان نے کہا کہ تما م منصوبوں پر مقامی شراکت داروں کی مدد سے کام جاری ہے اور اُنھیں بند نہیں کیا گیاہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ تنظیم کے سربراہ سمیت بلوچستان میں آئی سی آر سی کے عملے میں تین غیر ملکی شامل ہیں جب کہ باقی سب کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ترجمان نے بلوچستان میں تمام گروپوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صوبے میں امدادی تنظیموں کے کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں کیونکہ آئی سی آر سی ایک غیر جانبدار تنظیم ہے جو بغیر تعصب کے محض لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتی ہے۔
ترجمان نے کہا”آئی سی آر سی ایسا ادارہ ہے جو لوگوں کی مشکل وقت میں مدد اور حفاظت کر تا ہے ادارے نے حال میں سو ات اور وزیرستان سے بے گھر ہو نے والوں اور بلو چستان میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہو نے والے لوگو ں کی مدد ریڈ کر یسنٹ سوسائٹی کی مدد سے کی تھی اس طر ح کے جو بھی مسائل ہیں ادارہ اس میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتا ہے“۔
انھو ں نے بتایاکہ صوبے میں ادارے کا کو ئی بڑا پر اجیکٹ نہیں تھا البتہ ادارے نے حال ہی میں صوبے کے ایک دور دراز علاقے میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کی تھی جب کہ اس کے علاوہ عالمی تنظیم ریڈ کر یسنٹ سوسائٹی کی مد د کر رہی۔ خیال رہے کہ بلوچستان میں تشدد خاص طور پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہو ا ہے اور حکام کا ماننا ہے کہ ان کے پیچھے بلوچ عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے۔
گزشتہ سال فروری میں بلوچستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یواین ایچ سی آر کے سربراہ جان سولیکی کو بلوچ شدت پسندوں نے کوئٹہ سے اغوا کرلیا تھا جس کی ذمہ داری ایک بلوچ علیحدگی پسند تنظیم نے قبول کی تھی۔ تاہم دو ماہ بعد جان سولیکی کو رہا کردیا گیا اور مقامی میڈیا کے مطابق ان کی رہا ئی تاوان کے بدلے ممکن ہوئی۔