رسائی کے لنکس

نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا تو غیر جانبداری یقینی بناؤں گا، جسٹس وجیہہ


خود سے عہدے کی طلب نہیں، نگران وزیراعظم کا کام الیکشن کمشن کو بااختیار بنانا اور مشینری کو خاص طور پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کو غیر جانبدار رکھنا ہے، وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو

پاکستان کے سابق جسٹس، جسٹس وجہیہ الدین نے کہا ہے کہ انہیں نگران وزیراعظم بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن اگرملک کو ان کی خدمات کی ضرورت محسوس کی گئی اور انہیں قواعد کے مطابق پیشکش کی گئی تو وہ یہ ذمہ داری پوری دیانتداری سے احسن انداز میں انجام دیں گے۔

جسٹس وجیہہ الدین تحریک انصاف سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے اندر انتخابات میں الیکشن ٹریبیونل کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات کی انجام دیں اور ووٹنگ کے عمل میں بے ظابطگیوں کی تحقیقات کے دوران انہوں نے پارٹی قیادت سے اختلافات پر ستمبر 2016 میں عہدے سے استعفی دے دیا۔

وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان اسد حسن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ آئین کے تحت ایسے کسی شخص کو نگران وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا جو اس عہدے کے حصول کے لیے کوششیں کرے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ملک کے لیے کوئی بھی فریضہ انجام دینے کو تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کا کام سرکاری مشینری کو فعال اور غیر جانبدار رکھنا اور الیکشن کمشن کو با اختیار اور غیرجانبدار بنانا ہے اور اگر ان کو یہ ذمہ داری دی گئی تو وہ اس کو پوری ایمانداری سے انجام دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کو یقینی بنانا چاہئیے کہ جن لوگوں کو ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفیسرزتعینات کیا جائے ان کی ساکھ اچھی ہو اور وہ اپنے کام کو غیرجانبداری سے انجام دیں۔

جسٹس وجیہہ الدین نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کے باوجود کہ وہ تحریک انصاف کو خیرباد کہہ چکے ہیں، پارٹی کی قیادت کو ان کے پروفیشنلزم اور ایمانداری پر کوئی شبہہ نہیں ہو گا۔

واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز گزشتہ مہینوں میں تحریک انصاف کی جانب سے بعض معاملات کی تحقیقات کے مطالبے میں یہ کہتی رہی ہے کہ عمران خان چاہیں تو وہ جسٹس وجیہہ الدین کی قیادت میں کمشن بنوا سکتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز لیگ کو جسٹس وجیہہ الدین پر پورا بھروسہ ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار راؤ خالد کا کہنا تھا کہ جسٹس وجیہہ اچھی شہرت رکھتے ہیں اور غالب امکان ہے کہ اگر ان کا نام سامنے آیا تو مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کو اس پر اعتراض نہیں ہو گا، تاہم ہو سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس پر تحفظات سامنے آئیں۔

پاکستان میں آئینی تقاضے کے مطابق حکومت اور اپوزیشن جماعتیں نگران وزیراعظم کو اتفاق سے نامزد کرتی ہیں اور اگر یہ اتفاق نہ ہو سکے تو حتمی فیصلہ الیکشن کمشن کو خود کرنا ہوتا ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں باخبر صحافیوں کے مطابق ابھی تک سرکاری یا مقتدر ایوانوں سے کوئی نام سامنے نہیں آ رہا تاہم شہر کے بڑے بڑے ڈرائنگ رومز میں اس حوالے سے سابق گورنر سٹیٹ بنک عشرت حسین اور انجینئر شوکت اللہ کے نام زیربحث ہیں۔ راؤ خالد کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے خواہش ظاہر کی ہے کہ نگران وزیراعظم کا تعلق بلوچستان صوبے سے ہو۔ قانونی طور پر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا عمل دخل نگران وزیراعظم کی سلیکشن میں سب سے زیادہ ہو گا لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات میں حالیہ شدت کے بعد بعض مبصرین کہتے ہیں کہ شاید ہی دونوں جماعتیں کیسی ایک نام پر متفق ہو سکیں۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG