رسائی کے لنکس

نہرو بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم نہ ہوتے تو پورا کشمیر ہمارا ہوتا: مودی


وزیر اعظم مودی نے پارلیمنٹ میں اپنی 100 منٹ کی تقریر میں 23 مرتبہ نہرو کا نام لیا اور مہنگائی جیسے مسائل کے حوالے سے ان پر تنقید کی۔ فائل فوٹو۔
وزیر اعظم مودی نے پارلیمنٹ میں اپنی 100 منٹ کی تقریر میں 23 مرتبہ نہرو کا نام لیا اور مہنگائی جیسے مسائل کے حوالے سے ان پر تنقید کی۔ فائل فوٹو۔

بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی 2014 میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سے بار بار یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ اگر پنڈت جواہر لعل نہرو کی جگہ سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم ہوتے تو ملک کو بہت سے مسائل سے نجات مل گئی ہوتی۔

وہ ملک کے متعدد مسائل کی وجہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی پالیسی کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پٹیل وزیرِ اعظم ہوتے تو پورا کشمیر بھار ت کا حصہ ہوتا۔ انھوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کے دوران ایک بار پھر اپنی اس بات کا اعادہ کیا۔

انھوں نے اپنی 100 منٹ کی تقریر میں 23 مرتبہ نہرو کا نام لیا اور مہنگائی جیسے مسائل کے حوالے سے ان پر تنقید کی۔البتہ تاریخ دان نریندر مودی کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ اگر پٹیل پہلے وزیرِ اعظم ہوتے تو پورا کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا۔

بھارت کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی پر نظر رکھنے والے سری ناتھ راگھون نے سات فروری 2018 کو سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ایک موقعے پر پٹیل جوناگڑھ کے حصول اور حیدر آباد کے بھارت میں الحاق کے عوض پاکستان کو کشمیر دینے کے لیے تیار تھے۔

سرکردہ سیاسی تجزیہ کار اے جی نورانی نے جون 2000 میں بھارت کے موقر جریدے ’فرنٹ لائن‘ میں لکھا تھا کہ 27 نومبر 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل کے قبائلی جرگہ میں پٹیل کی اس پیشکش کا ذکر کیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق راہنما اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیر سدھیندر کلکرنی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہرو اور پٹیل کی سیز فائر رضامندی کی وجہ سے جموں و کشمیر کی تقسیم ہوئی۔

نریند رمودی بھارت کی تقسیم کے لیے بھی نہرو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن تاریخ دان راگھون کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے راہنما ونایک دامودر ساورکر نے محمد علی جناح سے 16 سال قبل ہی دو قوموں کا تصور پیش کردیا تھا۔

تجزیہ کار شیوم وِج نے ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ آخر نریندرمودی ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت نہرو کو کیوں تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟

’آر ایس ایس کو نہرو ماڈل قبول نہیں‘

ان کے مطابق آر ایس ایس کا یہ ٹھوس مؤقف رہا ہے کہ پنڈت نہرو اس قابل نہیں تھے کہ 1947 میں ملک کی باگ ڈور انھیں سونپی جاتی۔ انھوں نے گاندھی اور ماؤنٹ بیٹن کو بہکا کر حکومت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے بھارت کو ایک جمہوری اور سوشلسٹ ملک بنا دیا۔

شیوم وِج کے مطابق آر ایس ایس کا خیال ہے کہ نہرو نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کو اپنایا جس کی وجہ سے ملک میں مسائل پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایسی پالیسیاں وضع کیں جن کی وجہ سے نہرو کے ارد گرد ایک دانشورانہ ماحول قائم ہو گیا جو سات دہائیوں تک ملکی سیاست پر حاوی رہا۔

بعض دیگر مبصرین کہتے ہیں کہ نریند رمودی اور امت شاہ جس غیر مغربی ماحول اور آر ایس ایس کے نظریات کے پروردہ ہیں اس میں نہرو ماڈل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ہندو اسٹیٹ کی راہ میں رکاوٹ

اپنے مضمون میں شیوم وِج لکھتے ہیں کہ نریندر مودی کے خیال میں جب تک ملک میں نہرو کی سیکولر اور سوشلسٹ پالیسیاں زندہ ہیں بھارت کو ہندو اسٹیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ اسی لیے انھوں نے 014 2 میں کہا تھا کہ وہ بھارت کو ’کانگریس مکت‘ بنائیں گے یعنی ملک سے کانگریس پارٹی کا خاتمہ کر دیں گے۔

ایک سینئر تجزیہ کار رویندر کمار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنڈت نہرو نے ملک میں جو متعدد آئینی، جمہوری اور سیکولر ادارے قائم کیے وہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت آئینی اداروں کو کمزور اور ان کو اپنے نظریات کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہرو نے اس وقت کے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر بھارت کو ایک سیکولر ملک بنایا جس کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔

ان کے خیال میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ملک کا جو آئین بنایا تھا وہ بھی بھارت کو ہندو اسٹیٹ یا ہندتوابنانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے آر ایس ایس کی فکر کے وابستہ حلقے بار بار ملک کا آئین بدلنے کی بات کرتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان جیسا کوئی بڑا وزیر اعظم ابھی تک نہیں آیا۔ اسی لیے وہ خود کو سب سے بڑا وزیرِ اعظم ثابت کرنے کے لیے پنڈت نہرو کا ’بت‘ توڑنا چاہتے ہیں۔

کیا جناح ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:03 0:00

شیوم وِج کہتے ہیں کہ مودی صرف نہرو کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ وہ سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی پر تنقید نہیں کرتے اور راہول گاندھی کو تو اس لائق بھی نہیں سمجھتے کہ ان کا ذکر کیا جائے۔ اسی لیے وہ کبھی ان کا نام نہیں لیتے۔

خیال رہے کہ نریندر مودی کو اگر راہول گاندھی کے بارے میں کچھ کہنا ہوتا ہے تو وہ انھیں ’شہزادہ‘کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ سونیا گاندھی کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہتے۔

ان کے مطابق نریندر مودی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی پر بھی تنقید نہیں کرتے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان کی تقسیم ہوئی اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔

شیوم وِج کے مطابق پنڈت نہرو ہی نے ایک جدید بھارت بنایا اور بھارتی سیاست میں نہرو ماڈل کا ذکر ہوتا ہے۔ اس لیے شاید مودی کا خیال ہے کہ اس ماڈل یا فلسفے کی مقبولیت ختم کرنے کے لیے رائے عامہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔

’نہرو کے خلاف غلط پروپیگنڈا‘

سینئر صحافی اور تجزیہ کار اوم تھانوی بھی شیوم وج کے تجزیے کی تائید کرتے ہیں۔انھوں نے ’دی وائر‘کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آر ایس ایس کے نظریات پر یقین رکھنے والے نہرو کے زمانے میں بھی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اب بھی وہی لوگ ایسا کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ نہرو نے غلطیاں نہیں کیں۔ ان کی بھی کئی پالیسیاں غلط تھیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ فرضی تصاویر شائع کی جا رہی ہیں اور انھیں اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جیسے بھارت کے تمام مسائل کی جڑیں ان کی پالیسیاں ہیں۔

رویندر کمار کے مطابق مودی سمیت آر ایس ایس کے تمام راہنما پٹیل کی حمایت کرتے ہیں اور چوں کہ ان لوگوں کے پاس اپنا کوئی مثالی قائد نہیں ہے اسی لیے وہ پٹیل کو اپنا راہنما ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ یہ تاریخی سچائی ہے کہ پٹیل ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سخت مخالف تھے۔

پٹیل اور آر ایس ایس

ان کے مطابق پٹیل نے 1948 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ انھوں نے آر ایس ایس کے راہنماؤں کے سامنے پابندی لگانے کی وضاحت کی تھی اور بحیثیت وزیرِ داخلہ ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ ملک سے نفرت اور تشدد کی طاقتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ پابندی لگائی جا رہی ہے۔

ان کے بقول نہرو اور پٹیل میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پٹیل مکمل طور پر نہرو کی پالیسیوں کے حامی تھے۔

مودی حکومت نے سردار پٹیل کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے گجرات کے نرمدا ضلع میں سردار سروور ڈیم کے نزدیک سردار پٹیل کا مجسمہ نصب کیا تھا جو دنیا کا بلندترین مجسمہ ہے۔ اس مجسمے کی اونچائی 182 میٹر ہے اور وزیرِ اعظم مودی نے 31 اکتوبر 2008 کو اس کا افتتاح کیا تھا۔

’کشمیر اور چین کے مسئلے کے لیے نہرو ذمہ دار‘

بی جے پی کے ایک سینئر راہنما اور پارٹی کے میڈیا انچارج نوین کما رنے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پنڈت نہرو کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا۔

ان کے مطابق ریاست جموں و کشمیر بھارت میں ضم ہونے کے لیے تیار تھی اور جب پاکستان نے اس کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا تو بھارت کی فوج اسے واپس لینا چاہتی تھی لیکن پنڈت نہرو اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھوں نے اقوامِ متحدہ میں جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے اور اسے ویٹو پاور دینے کی خواہش مند تھی لیکن نہرو نے ہندی چینی بھائی بھائی کہہ کر ویٹو پاور لینے سے انکار کر دیا اور چین کو ویٹو پاور دے دی گئی۔ ان کے بقول بھارت نہرو کے اس فیصلے کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔

وہ اسے نہرو کی دو بڑی غلطیاں قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بھارت کی سیکیورٹی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ان کے بقول تمام ریاستوں کے انضمام کے بعد ان ریاستوں کے ذمہ دار سردار پٹیل کو وزیرِ اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن پنڈت نہرو نے خود وزیرِ اعظم بننے کی ضد کی اور گاندھی جی نے ان کی حمایت کی اور پھر انھوں نے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچایا۔

ان کے مطابق چین کا مسئلہ بھی نہرو نے پیدا کیا تھا۔ اگر اسے ویٹو پاور نہ ملتی تو آج یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد چین بھارت کے اندر آنے لگا۔ اکسائی چن کا علاقہ کانگریس کے دور میں چین کے قبضے میں گیا۔

بی جے پی کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر پٹیل پہلے وزیرِ اعظم ہوتے تو بھارت ایک سیکولر ملک کے بجائے ایک ہندو اسٹیٹ بنتا۔

نوین کمار اس کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر پٹیل وزیرِ اعظم ہوتے تو ملک مضبوط اور طاقت ور ہوتا۔ اسی وقت ملک میں یکساں قوانین لاگو ہو گئے ہوتے۔ اقلیتوں کو خوش کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔

ان کے بقول ہندوتوا کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک ضابطٔۂ حیات ہے جس میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کی بات کی گئی ہے۔ ان کے بقول پٹیل ایک سخت گیر راہنما تھے لہٰذا وہ وزیرِ اعظم ہوتے تو آج دہشت گردی کا مسئلہ نہیں ہوتا۔

کانگریس کی تردید

کانگریس کے راہنما مودی اور بی جے پی کے دیگر راہنماؤں کے الزام کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس حکومت کی پالیسیاں ناکام ہورہی ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بار بار نہرو کا نام لیتے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 17 فروری کو ایک ویڈیو بیان میں کہاتھا کہ موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ لیکن حکومت اپنی ناکامیوں کے اعتراف کی بجائے ملک کے پہلے وزیر اعظم کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔

نہرو کی تعریف اور تنازع

گزشتہ دنوں سنگاپور کے وزیرِ اعظم لی سین لونگ نے پنڈت نہرو کی ستائش کی اور کانگریس کو نہرو کے دفاع اور مودی حکومت پر تنقید کا موقع مل گیا۔

سنگاپور کے وزیر اعظم نے 15 فروری کو اپنے ملک کی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران جمہوریت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے نہرو کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں جمہوریت پر بہت زوال آیا ہے۔

انھوں نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے کہا کہ بھارت کی لوک سبھا کے نصف ارکان کے خلاف جنسی زیادتی اور قتل سمیت متعدد مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ تاہم انھوں نے کسی تنازع سے بچنے کے لیے یہ بھی کہا کہ ان میں سے بہت سے الزامات سیاسی وجوہ سے لگائے گئے ہیں۔

بھارت نے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور نئی دہلی میں سنگاپور کے سفیر کو طلب کرکے وزیرِ اعظم لی سین لونگ کے بیان کو غیر ضروری اور ناقابلِ قبول قرار دیاتھا۔

خیال رہے کہ سنگاپور اور بھارت ایک دوسرے کے اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔

وزیرِ اعظم مودی نے اپنے سات سالہ دور حکومت میں پانچ بار سنگاپور کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے وزیرِ اعظم سے ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ لہٰذا بھارت کے ردِعمل کو ضرورت سے زیادہ سمجھا جا رہا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت اپنے اندرونی امور کے سلسلے میں دوسرے ممالک کے راہنماؤں کے ریمارکس کو ناپسند اور ان پر اعتراض کرتا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG