رسائی کے لنکس

طورخم بارڈر پر تاجروں کی مشکلات؛ 'جن کے ٹرکوں میں پھل اور سبزیاں ہیں وہ تو برباد ہو جائیں گے'


پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ پانچ روز سے تجارت کے لیے عملاً بند پڑی ہے جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف کھڑے سینکڑوں ٹرکوں میں تاجروں کا کروڑوں روپے مالیت کا سامان ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب طورخم سرحد کو تجارت کے لیے بند کیا گیا ہو ماہرین کہتے ہیں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

سرکاری حکام کہتے ہیں کہ بارڈر کھلا ہے۔ لیکن بغیر دستاویزات کے کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔

بلوچستان سے ملحقہ چمن بارڈر کراسنگ کے بعد اب خیبرپختونخوا میں انگور اڈہ، غلام خان، خرلاچی اور طورخم بارڈر کراسنگ بھی عملاً بند پڑے ہیں جب کہ 15 جنوری کو اس حوالے سے سرحد پر دونوں ملکوں کی فلیگ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے اختتام کو پہنچی جس کے باعث دونوں ملکوں کی تاجر برادری میں مایوسیوں کے سائے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ بغیر دستاویزات کے پاک، افغان سرحد سے کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان نے ویزے اور پاسپورٹ کی شرط کو بھی لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم چمن سرحد پر اس معاملے میں کئی روز سے جاری دھرنے کے بعد اب طورخم سرحد پر بھی دونوں ملکوں کے تاجروں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔

'ہماری اُمیدیں اب مایوسی میں بدل رہی ہیں'

پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے رہنما شاہد حسین خان بھی اس صورتِ حال سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ 15 اگست 2021 میں طالبان کی آمد کے ساتھ دونوں ملکوں کی تاجر برادری کی جو امیدیں تھیں اب وہ مایوسیوں میں بدل رہی ہیں کیوں کہ کاروبار ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان تاجروں کو پاسپورٹ بنوانے کے لیے مہلت دی تھی اور یہ سلسلہ شروع بھی ہو گیا تھا، لیکن اچانک پتا چلا کہ پاسپورٹ مشین خراب ہو گئی ہے۔

شاہد حسین نے دعویٰ کیا کہ درحقیقت طالبان حکام کو یہ ڈر ہے کہ اگر بڑی تعداد میں لوگوں کو پاسپورٹ جاری کر دیے گئے تو یہ لوگ ملک سے باہر چلے جائیں گے اور اسی دوران پاکستان کی جانب سے دی گئی مہلت بھی ختم ہو گئی۔

اُن کے بقول اب یہی وجہ ہے کہ بارڈر پر ہمارے لیے زندگی تھم سی گئی ہے کیوں ٹرانسپورٹرز کی اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔

طورخم بارڈر کراسنگ پر موجود حکام کے مطابق 11 جنوری کو 900 سے زائد ٹرکوں نے طورخم بارڈر کراس کیا جن کی تعداد 13 جنوری کو گھٹ کر 580 رہ گئی۔ اس طرح گزشتہ پانچ روز میں ہزاروں ٹرکوں نے پاک افغان سرحد طورخم کو کراس کرنا تھا جو اب دستاویزات نہ ہونے کے باعث سرحد کے آر پار پھنس چکے ہیں۔

'دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کا سارا غصہ تاجروں پر ہی نکلتا ہے'

افغان ڈرائیور محمدجان بھی اپنے کارگو کے ساتھ بارڈر پر پھنس چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تاجر جو پاکستان سے ٹریکٹر یا کوئی مشینری لے کر جا رہے ہیں ان کا تو اتنا نقصان شاید نہ ہو لیکن وہ ٹماٹر لے کر جا رہے ہیں جو اب خراب ہونے کے قریب ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو تاجر پھل اور سبزیاں بارڈر لے جا رہے تھے وہ اس صورتِ حال سے برباد ہو جائیں گے۔

اُن کے بقول گاڑیوں کے یومیہ خرچے ایک طرف اور سبزیوں اور پھلوں کا گلنا سڑنا ایک طرف مطلب ہر طرف نقصان ہی نقصان ہے۔

اُن کے بقول یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بارڈرز بند کیے جا رہے ہیں بلکہ آئے روز کوئی نہ کوئی معاملہ ہوتا ہے اور پھر سارا زور اور غصہ غریب تاجروں پر نکالا جاتا ہے۔

تجارتی حلقوں کے مطابق صورتِ حال اس وقت سے بگڑنے لگی جب اکتوبر 2023 میں پاکستان کو پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں مبینہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑے۔

پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تین اکتوبر 2023 کو ایس آر او جاری کرتے ہوئے متعدد اشیا پر 10 فی صد کے حساب سے پراسیسنگ فیس مقرر کی جب کہ سات اکتوبر 2023 کو ایف بی آر نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کسٹمز کلیئرنس ایجنٹس کو بینک گارنٹیز کا پابند بنایا گیا۔

اس طرح سینکڑوں افغان مال بردار گاڑیاں ان شرائط کے باعث کراچی پورٹ پر پھنس گئیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے افغان طالبان عبوری حکومت کے وزیر برائے صنعت و تجارت نور الدین عزیزی نے گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ ان کے دورے کے بعد افغان تاجروں کو عارضی رعایت دی گئی۔ لیکن اس کے بعد دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔

'آن لائن ویزے کے لیے تین ماہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے'

افغان تاجر اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک حاجی میر نازک کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستان اور افغانستان کے تجارتی تعلقات پر سیاسی تعلقات حاوی ہیں۔

اُن کے بقول جب بھی دونوں ممالک میں سفارتی کشیدگی ہوتی ہے اس کا اثر تجارت پر پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارا پاسپورٹ کا ایشو تھا لیکن اب وہ حل ہو چکا ہے۔ لیکن اب مسئلہ پاسپورٹ پر ویزے کا ہے۔ ہم آن لائن ویزے کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن چونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات خوش گوار نہیں ہیں تو ہمیں کم ازکم تین ماہ کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔"

اُن کے بقول یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ تین ماہ بعد بھی ویزہ لگے گا یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک وہ دور تھا کہ جب روزانہ 1500 گاڑیاں صرف طورخم پر بارڈر کراس کرتی تھیں اور اب یہ بارڈر ویران ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری دونوں حکومتوں سے اپیل ہے کہ اس صورتِ حال پر غور کریں کیوں کہ دونوں ممالک کا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔

افغان صوبے ننگرہار میں ایک ٹرانسپورٹ کمیشن بھی بنایا گیا تاکہ وہ بارڈر کراسنگ کے اس مسئلے کو مقامی طور پر حل کرے۔ تاہم پاکستان کے تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی نمبر پلیٹ رکھنے والی گاڑیوں کو روکنا شروع کر دیا۔

شاہد حسین کہتے ہیں کہ "جب پاکستان کی جانب سے قانونی دستاویزات کی شرط رکھی گئی تو افغان حکام نے ردِعمل میں پاکستانی نمبر پلیٹ والے ٹرکوں کو روکنا شروع کر دیا۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ کئی افغان ٹرانسپورٹ تاجروں کی گاڑیوں کے نمبر پلیٹس پاکستانی ہیں کیوں کہ دو دہائیوں سے وہ طورخم سے لے کر کراچی اور لاہور تک سفر کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنی گاڑیاں پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی تھیں۔"

اُن کے بقول اب افغانستان میں ٹرانسپورٹ کمیشن سے سب سے زیادہ خود افغان تاجر متاثر ہو رہے ہیں۔

منگل کو بلانتیجہ ختم ہونے والی فلیگ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس صورتِ حال کو کابل اور اسلام آباد کے نوٹس میں لایا جائے گا، تاہم اس وقت بھی سینکڑوں گاڑیاں اور ڈرائیورز پاک افغان سرحد کے آر پار شدید سردی اور سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ اپنے مستقبل کا انتظار کر رہے ہیں۔

صحافی اکمل قادری گزشتہ کئی روز سے طورخم بارڈر کی صورتِ حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اسلام آباد اور کابل کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے طورخم بارڈر گیٹ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

اُن کے بقول "گو کہ بارڈر اعلانیہ طور پر بند نہیں ہے لیکن حکام بغیر دستاویزات کے ان گاڑیوں کو بارڈر پار نہیں کرنے دے رہے ہیں اس لیے عملاً بارڈر بند ہے۔ یہاں تک کہ پیدل آمدورفت بھی کافی کم ہو گئی ہے۔"

اُن کے بقول بدھ کو آدھے گھنٹے کے لیے ہم نے دیکھا کہ پیدل لوگ پاسپورٹ اور ویزے پر بارڈر کراس کر رہے تھے لیکن اب ٹرکوں کی لمبی قطاریں پاک افغان مرکزی شاہراہ پر دُور دُور تک نظر آ رہی ہیں۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG