رسائی کے لنکس

حکومت ’ریفارم پروگرام‘ پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہتی ہے: عمران خان


وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کے ’ریفارم پروگرام‘ کے تب تک بہتر نتائج برآمد نہیں ہونگے، جب تک سرکاری افسران پالیسی پر عملدرآمد نہیں کرائیں گے۔

سرکاری افسران سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ فی الحال ’’مشکل وقت برداشت کریں۔۔۔ جو زیادہ دیر تک نہیں رہتا‘‘، اور یہ کہ حالات بہتر ہونے پر اُن کی تنخواہ میں خاطرخواہ اضافہ کر دیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بیوروکریسی کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ہو اِس سے ’’مجھے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم بیوروکریسی کو تحفظ فراہم کریں گے اور سیاسی مداخلت سے بچائیں گے۔ مجھے صرف کام سے غرض ہے‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کچھ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔ لیکن گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ۔۔۔۔ ہم بیوروکریسی کو تحفظ فراہم کریں گے اور سیاسی مداخلت سے بچائیں گے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’غلطیوں سے کوئی شخص پاک نہیں۔ مجھ سے بھی غلطیاں ہوئیں، بیورو کریٹس سے بھی ہوسکتی ہیں‘‘۔

وزیر اعظم نے اس عزم کا اعادہ تو کیا کہ ان کی طرف سے سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ لیکن، حالیہ دنوں میں دو ضلعی انتظامی افسران کی جانب سے قومی اسمبلے کے ارکان کی مداخلت پر ان کی جانب سے خطوط لکھے جانے پر انہیں جواب طلبی کے احکامات ملے۔ اس حوالے سے، ’ڈی ایم جی گروپ‘ سے منسلک اسلام آباد ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ماضی کی طرح ہی ’ایم این ایز‘ اور دیگر سیاسی قائدین کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

حالیہ عرصے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور پنجاب کے قائد اعظم تھرمل پاور کے ’سی ای او‘، احد چیمہ کی گرفتاریوں کے بعد ’ڈی ایم جی‘ افسران میں کافی پریشانی پائی جاتی ہے۔

افسران کا کہنا ہے کہ وہ حکم حاکم کے پابند ہوتے ہیں۔ اگر ان کے احکامات سے انکار کیا جائے تو ’او ایس ڈی‘ یا دور دراز علاقوں میں پوسٹنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن، اگر مانا جائے تو نیب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی حوالے سے اور عمران خان کی بیوروکریسی سے تقریر کے پر سابق بیوروکریٹ، تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ بیوروکریٹس کے حوالے سے عمران خان کے اعلانات خوش آئند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’بیوروکریٹس ملکی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، جب ان پر دباؤ آتا ہے یا انہیں کسی غلط کام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں نیب اور دیگر اداروں کے سامنے کل کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ اگر عمران خان بیوروکریسی کے ساتھ کھڑے ہوں تو مشکل سے مشکل چیلنج حاصل کرنا مشکل نہیں۔‘‘

پاکستان میں بیوروکریسی کو ہر دور میں اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ اصل حکومت کے کل پرزے یہی بیوروکریٹس ہیں۔ لیکن، حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن دیکھ کر، بیوروکریٹس بھی اپنا حصہ وصول کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG