رسائی کے لنکس

عمران خان اٹک جیل میں کس حال میں ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان اٹک جیل میں قید ہیں اور ان کے وکلا کی کوشش ہے کہ انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا جائے۔

عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے پیر کو اٹک جیل میں عمران خان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تفصیل تو فوری طور پر سامنے نہیں آئی البتہ نعیم پنجوتھہ نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو جیل میں اذیت میں رکھا گیا ہے لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں۔

اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کےوائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو اٹک جیل کے 9 بائی 11 کے سیل میں رکھا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع کے مطابق عمران خان کو سخت حفاظتی اقدمات کے باعث اٹک جیل کے ایک علیٰحدہ سیل میں دیگر قیدیوں کی طرح رکھا گیا ہے جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کے سیل میں تمام بنیادی سہولتیں ہیں جن میں ایک پنکھا، بستر، مقررہ وقت پر کھانا، چائے اور الگ لیٹرین کی سہولت دستیاب ہے۔

دیگر قیدیوں کی طرح عمران خان کو بھی جیل میں ہفتے میں ایک دِن اپنے اہلِ خانہ اور وکلاء سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔

اٹک جیل برطانوی دور میں تعمیر کی گئی ہے جسے ایک سیکیورٹی جیل سمجھا جاتا ہے۔ اٹک جیل انتظامیہ کے مطابق ماضی میں اس جیل میں ایسے لوگوں کو حراست میں رکھا جاتا تھا جو بغاوت میں ملوث ہوتے تھے۔

عمران خان بطور سابق وزیرِ اعظم پاکستان پہلے سیاست دان ہیں جنہیں اٹک جیل میں قید کیا گیا ہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی کو بھی اس جیل میں قید کیا گیا تھا۔

سابق وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان، سابق وفاقی وزیر مواصلات اعظم خان، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز بھی اٹک جیل میں قید رہ چکے ہیں۔

عمران خان کو جیل میں 'بی' کلاس کیوں میسر نہیں؟

ذرائع محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق قواعد کے مطابق جب بھی کسی شخص کو جیل میں قید کیا جاتا ہے تو اُس کی جانب سے بی کلاس یا دیگر سہولتوں کے لیے ایک درخواست دی جاتی ہے۔اب تک عمران خان کی جانب سے تاحال ایسی کوئی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

محکمہ داخلہ پنجاب سے جب عمران خان کی جانب سے بہتر کلاس کی درخواست دی جائے گی تو اُس پر قانون کے مطابق غور کیا جائے گا۔

ذرائع محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق عمران خان کی جانب سے بی کلاس کی درخواست وصولی کے بعد پاکستان پریزنز رولز 1978 کے تحت بی کلاس دے دی جائے گی جس میں انہیں جیل کا کھانا، کپڑے، ایک میز، ایک کرسی، کتابیں، من پسند اخبارات، ایک گدا، اور بیرک میں غسل خانے کی سہولت ہو گی البتہ اُنہیں باہر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

'ابھی تو توشہ خانہ ہے، عمران خان کو مزید کیسز میں جواب دینا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:57 0:00

پنجاب پولیس نے پانچ اگست کو عمران خان کی لاہور میں رہائش گاہ زمان پارک سے انہیں گرفتار کیا تھا۔ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے انہیں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دے سنائی تھی۔

اس سزا کے باعث عمران خان سزا کے مکمل ہونے کے بعد پانچ سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ پارلیمنٹ کی جانب سے نااہلی کی مدت کے بارے میں حالیہ آئینی ترمیم کے مطابق وہ پانچ سال تک نہ الیکشن لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی پارٹی یا حکومتی عہدہ رکھ سکتے ہیں۔

عمران خان کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری

عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والی پنجاب پولیس کی ٹیم کے ایک رکن ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور نے سابق وزیرِ اعظم کی گرفتاری کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اسلام آباد پولیس نے نہیں بلکہ لاہور پولیس نے گرفتار کیا تھا۔سابق وزیرِ اعظم کی گرفتاری کے وقت اسلام آباد پولیس کے اہل کار یا افسران لاہور میں موجود نہیں تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا عمران خان کو گرفتار کرنے کا حکم اسلام آباد کی ایک عدالت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کو جاری ہوا تھا۔ جس پر اُنہوں نے محکمۂ داخلہ پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سے رابطہ کیا اور عدالتی فیصلے پر عمل کے لیے کہا۔ بعدازاں محکمۂ داخلہ پنجاب نے آئی جی پنجاب سے رابطہ کیا اور اس طرح آئی جی پنجاب کے دفتر سے سی سی پی او لاہور سے عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا گیا۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے ڈی آئی جی آپریشن لاہور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور اور ایس ایس پی سی آئئ اے لاہور زمان پارک پہنچے تو وہاں پولیس کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

عمران کشور کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کسی آپریشن کا حصہ نہیں تھی۔ انہوں نے صرف عدالتی حکم پر اپنا فرض پورا کیا ہے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے مطابق جب پولیس ٹیم عمران خان کو گرفتار کرنے اُن کے گھر پہنچی تو وہ سو کر اُٹھے تھے۔ گرفتاری سے قبل اُنہوں نے اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے وقت مانگا جو پولیس نے دے دیا۔

ان کے بقول جب پولیس عمران خان کو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی تو راستے میں اُن سے پوچھا گیا کہ اُنہوں نے کھانا کھایا ہے۔ جس پر عمران خان نے نفی میں جواب دیا جس پر پولیس پارٹی نے اُنہیں کھانا کھلایا۔

عمران کشور کے مطابق گرفتاری کے وقت عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ جب پولیس کی ٹیم نے عمران خان کو بتایا کہ وہ اُنہیں عدالتی حکم پر گرفتار کرنے آئے ہیں تو وہ پریشان ہو گئے۔

عمران خان کی گرفتاری کے وقت ایس ایس پی سی آئی اے کیپٹن ریٹائرڈ ملک لیاقت علی کے ساتھ کھینچی گئی تصویر پر اُنہوں نے کہا کہ یہ تصویر کسی نے بنا لی ہو گی، وہ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں۔

توشہ خانہ کیس میں سزا: عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:45 0:00

عمران کشور نے مزید بتایا کہ زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کے لوگوں نے مزاحمت کی کوشش کی تھی جن کی تعداد 13 تھی۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا اور اُن کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر لیا۔

دوسری جانب عمران خان کے ذاتی محافظ عمران خان کی گرفتاری کو ایک آپریشن کا نام دیتے ہیں۔ عمران خان کی حفاظت پر مامور افراد کی ٹیم کے سربراہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گرفتاری کے وقت عمران خان کے گھر کو پولیس نے چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا تھا اور گھر کی جانب آنے والے تمام راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کے کچھ اہل کار گھر کے عقبی راستے سے دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور باغیچے اور صحن میں جمع ہوئے۔ اتنے میں عمران خان کو پولیس کی اطلاع دی گئی۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی مزاحمت نہ کرے۔ وہ خود گرفتاری دے دیتے ہیں۔

سیکیورٹی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ عمران خان اپنی متوقع گرفتاری سے باخبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی گرفتاری سے قبل پارٹی کے کارکنوں کے لیے ایک ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ جس میں اُنہوں نے کارکنوں سے پرامن احتجاج کی اپیل کی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG