رسائی کے لنکس

عمران خان نو حلقوں سے الیکشن لڑیں گے مگر ضمنی انتخابات کا شیڈول چیلنج


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نےقومی اسمبلی کے نو حلقوں کے لیے الیکشن کمیشن کا جاری کردہ انتخابی شیڈول اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست زیرِالتوا ہے اور اس بارے میں عدالتی نوٹس کے باوجود شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ان تمام حلقوں میں خود انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان ان تمام نشستوں پر انتخاب جیت کر تمام مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہیں سیاست سے مائنس کرنا آسان نہیں ہے۔

ضمنی انتخاب کا شیڈول عدالت میں چیلنج

پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے وکیل فیصل چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے انتخابی شیڈول کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست زیرِ التوا ہے۔ عدالت چار اگست کو درخواست پر سماعت کرکے نوٹس جاری کر چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کو نوٹس کا معلوم ہے اس کے باوجود شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا پانچ اگست کو جاری کردہ شیڈول معطل کیا جائے، پی ٹی آئی کے مرکزی کیس کے فیصلے تک الیکشن کمیشن کا انتخابی شیڈول معطل رکھا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی اور قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق درخواست پر بدھ کو سماعت کریں گے۔

عمران خان نو حلقوں سے الیکشن لڑیں گے

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان ان تمام نو حلقوں پر خود الیکشن لڑیں گے۔

اس بارے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹرز میں جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک سے زائد حلقوں میں الیکشن جیت کر دوبارہ الیکشن ہونا قومی پیسے کا ضیاع ہے۔

پاکستان میں انتخابی عمل اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نو حلقوں سے ایک وقت میں انتخاب لڑنے کے حوالے سے قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اس بارے میں قانون سازی ہونی چاہیے تھی کہ کسی بھی شخص کو ایک یا دو سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس موقع پر ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں محسوس ہوگا کہ عمران خان کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کے بارے میں حکومت کی طرف سے انہیں نااہل کرنے کی جو بات کی جارہی ہے اس پر عمران خان ایک پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ کمزور نہیں ہیں۔

تجزیہ کار سلمان عابد بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تمام ارکان کے استعفے منظور کیے تھے لیکن حکومت نے انہیں قبول نہیں کیا اور ان پر فرداً فرداً تمام ارکان کو بلوا کر انہیں منظور کرنا چاہتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس بات کا جواب اب عمران خان ایسے دے رہے ہیں کہ وہ تمام حلقوں پر انتخاب کروا کر جیت کر دوبارہ ضمنی انتخاب کروانا چاہتے ہیں۔

سلمان عابد کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ انہیں پاکستانی سیاست سے ایسے دور نہیں کیا جاسکتا اور بار بار ضمنی انتخاب کروانے کے بجائے ضروری ہے کہ جنرل الیکشن کروائے جائیں۔

ضمنی انتخاب پر بار بار اخراجات

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک سے زائد حلقوں میں الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں ہےاور گزشتہ الیکشن میں عمران خان نے پانچ حلقوں سے کامیابی حاصل کی اور ایک نشست رکھنے کے بعد باقی چار حلقوں میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔

ماضی میں بھی کئی سیاسی رہنما ایسے ہی انتخابات لڑتے رہے ہیں اور ایک سے زائد حلقوں میں الیکشن لڑتے ہیں۔

احمد بلال محبوب کے مطابق ایک سے زائد حلقہ میں الیکشن لڑنے کا مطلب کسی سیاسی رہنما کی طرف سے اپنی مقبولیت کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ پاکستانی قوانین میں اس پر پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ انتخابات پر خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ انتخابی اخراجات کو بچانے کے لیے لوگوں کو روکا جائے تو اس بارے میں قانون سازی کی جائے کہ انہیں دیگر حلقوں کے اخراجات خود ادا کرنے چاہیے ۔

سلمان عابد نے کہا کہ "میں ذاتی طور پر مقبول قومی سیاست دانوں کے بھی دو سے زائد حلقوں سے انتخاب لڑنے کا حامی نہیں ہوں۔اس بارے میں قانون سازی ہونی چاہیے کیونکہ ایسے الیکشن لڑ کر بار بار انتخاب سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔'

ماہرین کے مطابق موجودہ دور میں الیکشن اخراجات میں مزید اضافہ ہوچکا ہے اور روپے کی گرتی قدر اور مہنگائی میں اضافہ کے بعد آئندہ ہونے والے جنرل الیکشن ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہوں گے۔ جبکہ ضمنی انتخابات کے دوران بھی ایک حلقہ میں ہونے والے انتخابی اخراجات میں ماضی کے مقابلہ میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

XS
SM
MD
LG