رسائی کے لنکس

عمران کی وزیراعظم ہاؤس جانے کی دھمکی، قادری نے ڈیڈلائن دیدی


عمران خان نے وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائے گی۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کیوں کہ ان کا سونامی وزیرِاعظم ہاؤس کا رخ بھی کرسکتا ہے۔

دوسری جانب عوامی تحریک کے سربراہ طاہرہ القادری نے حکومت کو مستعفی ہونے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے 48 گھنٹوں کی ڈیڈلائن دی ہے۔

ہفتے کی رات اپنے ’انقلاب مارچ‘ کے مطالبات کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی کابینہ کے وزرا سمیت مستعفی ہو جائیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ انقلاب مارچ کے شرکا، نواز شریف اور شہباز شریف کے مستعفی ہونے، اُن کی حکومتوں کے ختم ہونے تک اور اُن کے گرفتار ہونے تک اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔

طاہر القادری نے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسملبیوں کی تحلیل کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ ملک میں قومی حکومت تشکیل دی جائے۔

عوامی تحریک کے سربراہ نے حکومتی وزرا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور خبردار کیا کہ اگر 48 گھنٹوں کی ڈیڈلائن سے قبل ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو عوام کے ردِ عمل کے ذمہ دار وہ نہیں ہوں گے۔

اس سے قبل ہفتے کی شب ہی اسلام آباد میں 'تحریکِ انصاف' کے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ پوری رات دھرنے میں کارکنوں کے ساتھ شریک رہیں گے اور آزادی کا جشن منائیں گے۔

عمران خان گزشتہ رات اسلام آباد پہنچنے کے بعد اپنے کارکنوں کو برستی بارش میں چھوڑ کر دھرنا ہفتے کی دوپہر تین بجے سے شروع کرنے کا اعلان کرکے گھر چلے گئے جس کے باعث انہین مختلف سیاسی حلقوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

لیکن ہفتے کو دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ ہی رکیں گے، یہیں بیٹھیں گے اور یہیں سوئیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن بھی اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں اور ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم حکمران جماعت کے وزراء اور حزب مخالف کی بیشتر جماعتوں نے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیا۔

ان دونوں جماعتوں کے قافلے جمعرات کو علیحدہ علیحدہ لاہور سے روانہ ہوئے تھے لیکن جمعہ کی نصف شب کے بعد یہ تقریباً ساتھ ساتھ ہی اسلام آباد پہنچے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے علاوہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اپنے فوری ردعمل میں عمران خان اور طاہر القادی کی طرف سے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیا۔

لاہور سے جمعرات کو لانگ مارچ شروع کرنے والے عمران خان کا قافلہ جب جمعہ کو نصف شب کے بعد اسلام آباد پہنچا تو بارش ہو رہی تھی۔

اپنے کارکنوں کو بارش میں چھوڑ کر چلے جانے پر بھی عمران خان کو حکمران جماعت کے علاوہ بعض دیگر جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے رہنما اپنے قائد کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کا ’انقلاب مارچ‘ بھی طاہر القادری کی قیادت میں جمعہ کو نصف شب کے بعد اسلام آباد پہنچا۔

طاہر القادری کو خیابانِ سہروردی پر جلسے کی اجازت دی گئی ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ احتجاجی مارچ میں شامل افراد کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں اُنھوں نے احتجاج کی قیادت کرنے والے رہنماؤں سے کہا کہ وہ حکومت سے تعاون کریں۔

وفاقی دارالحکومت میں غیر ملکی سفارتخانوں اور اہم سرکاری عمارتوں والا علاقہ 'ریڈزون' مکمل طور پر سیل ہے۔ حکومت متنبہ کر چکی ہے کہ اس جانب کسی کو جانے کی اجازت نہیں اور خلاف ورزی کرنے والے کو سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد اور اس کے ارد گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 25 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

عمران خان کے ’آزادی مارچ‘ اور طاہر القادری کے ’انقلاب مارچ‘ کا لاہور سے اسلام آباد کا سفر تقریباً پرامن رہا، ماسوائے گوجرانوالہ میں، جہاں مسلم لیگ (ن) اور عمران خان کے حامیوں میں معمولی تصادم ہوا جس پر جلد ہی قابو پا لیا گیا۔

پنجاب حکومت نے اس واقعہ کے فوراً بعد اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے تمام کارکنوں کو پرامن رہنے کی ہدایت بھی کی۔

وفاقی دارالحکومت میں صورت حال عمومی طور پر پرامن ہے اور جن مقامات پر دھرنے دیئے جا رہے ہیں اس کے قریبی علاقوں کے علاوہ باقی شہر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔

XS
SM
MD
LG