رسائی کے لنکس

بھارتی حکومت کا طلبہ کو پاکستان میں تعلیم حاصل نہ کرنے کا نوٹس: ’سب سے زیادہ کشمیری طلبہ متاثر ہوں گے‘


بھارت کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو سی جی) اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (اےآئی سی ٹی ای) نے ایک مشترکہ پبلک نوٹس جاری کرکے ملک کے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان نہ جائیں۔

ان دونوں اداروں نے خبر دار کیا ہے کہ پاکستان میں حاصل کی گئی ڈگری کی بنیاد پر طلبہ کو بھارت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں ملے گا اور نہ ہی سرکاری ملازمت دی جائے گی۔ البتہ اس نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اعلان کا اطلاق بھارتی شہریت حاصل کرنے والے یا سیکیورٹی کی بنیاد پر سکونت کی منظوری حاصل کرنے والے تارکینِ وطن اور ان کے بچوں پر نہیں ہوگا۔ یہ افراد بدستور پاکستان میں حاصل کی گئی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر بھارت میں ملازمت کے اہل رہیں گے۔

اس مشترکہ نوٹس میں بھارتی شہریوں کو پاکستان میں تعلیم سے اجتناب کی وجوہ سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ تاہم ماضی میں بھارتی عہدے دار یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ پاکستان میں زیرِ تعلیم بالخصوص کشمیری طلبہ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے نظریات سے متاثر ہوکر لوٹتے ہیں۔پاکستان کشمیر میں مداخلت کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کے اس عوامی نوٹس سے پاکستان میں زیرِ تعلیم بھارتی طلبہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان کے والدین بھی بے حد پریشان ہیں۔ پاکستان میں زیرِ تعلیم ان طلبہ یا وہاں کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد میں سے اکثر کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔

سری نگر کے ایک شہری عبدالمجید (نام تبدیل کیا گیا ہے)جن کی بیٹی لاہور کی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر زیادتی بلکہ ظلم ہے ۔ موجودہ بھارتی حکومت نے اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو زبردستی مسلط کرنے کے لیے یہ نوٹس جاری کروایا ہے۔

ان کے بقول بھارتی حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر طلبہ جموں و کشمیر ہی سے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ ان طلبہ کو زک پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

لاہور ہی کے ایک میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ایک کشمیری طالبہ زینب وانی ( نام تبدیل کیا گیا ہے) نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ اگر بھارتی حکومت کو فیصلہ کرنا ہی تھا تو وہ یہ کہتے کہ اس کا اطلاق ان طلبہ پر نہیں ہوگا جو اس وقت پاکستان میں زیرِ تعلیم ہیں یا یہاں سے اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد واپس بھارت لوٹ چکے ہیں، بلکہ اس کا اطلاق مستقبل میں وہاں تعلیم کے لیے جانے والوں پر کیا جاسکتا تھا۔

اس نوٹس نے مجھے ڈرا دیا ہے: کشمیر ی ڈاکٹر

یو سی جی اور اےآئی سی ٹی ای کے اس مشترکہ نوٹس نے ان پیشہ ور افراد کو بھی فکر مند کردیا ہے جو حالیہ برسوں میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارت لوٹے ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کررہے ہیں۔

وادی کشمیر کے ایک سرکاری اسپتال میں تعینات ڈاکٹر اظہر بٹ (نام تبدیل کیا گیا ہے) کے مطابق :’’یہ واضح نہیں کہ حکومت مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنے والی ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ اس نوٹس نے مجھے ڈرا دیا ہے"۔

ڈاکٹر بٹ نے کہا کہ انہوں نے چند برس پہلے کراچی کے ایک میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر بھارت واپس آ کر فارین میڈکل گریجویٹ (ایف ایم جی ای) کا امتحان بھی پاس کیا تھا جو بھارت میں طبی مشق شروع کرنے یا ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا لائسنس حاصل کرنے لیے لازمی ہے ۔کسی دوسرے ملک سے طب کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے لیے یہ امتحان پاس کیے بغیر میڈکل کونسل آف انڈیا کی رجسٹریشن نہیں دی جاتی ہے۔

پاکستان کا ردِ عمل

پاکستان نے یو سی جی اور اےآئی سی ٹی ای کے مشترکہ نوٹس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور اسے دھمکی آمیز قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اس نوٹس کو "ظالمانہ آمریت"کی عکاسی قرار دیا گیا ہے۔

اس پر اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے کہا ہے کہ بھارت کی حکومت طلبہ کو معیاری تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہی ہے جو افسوس ناک ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اس پبلک نوٹس کے مندرجات نےبھارتیہ جنتا پارٹی اور راشتریہ سوئم سیوک سنگھ اتحاد کے گہری نظریاتی بغض اور پاکستان کے خلاف دائمی دشمنی کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ حکومتِ پاکستان نے مذکورہ نوٹس کے بارے میں بھارتی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ ان کے بقول پاکستان بھارت کے اس کھلم کھلا امتیازی اقدام کے مناسب جواب کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

’سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہوئے ہیں‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کئی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں جو بھارتی طلبہ زیرتعلیم ہیں ان میں سے تقریبا" سبھی کاتعلق چونکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے لہٰذااس فیصلے سے زیادہ متاثر بھی کشمیری ہوں گے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے تقریبا" 1600 طلبہ نے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے لیے ہیں۔ اس وقت بھی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے 400 سے زائد طلبہ اور طالبات پاکستان کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثر میڈیکل کے طالبِ علم ہیں۔ ان میں سے کئی ایک جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم سارک کے اسکالرشپ پروگرام کے تحت پاکستان کے مختلف پیشہ ور کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں ۔

پاکستان کے پیشہ ورانہ اور دوسرے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیےکئی دوسرے طلبہ کا انتخاب اوپن میرٹ میں ، مختلف بین الاقوامی تعلیمی پرگرامز یا پھر سیلف اسپانسرڈ اسکیموں کے تحت ہوا ہے۔

اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے طلبہ بالخصوص ریاست میں تین دہائیوں سے جاری تشدد سے متاثر ہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو مختلف اسکیموں کے تحت ملک میں طب اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف اور دوسرا مالی تعاون فراہم کرتی ہے۔اس پر بھارتی حکومت کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے۔ ان پروگرامز کے تحت ہر سال 180 طلبہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اور پیشہ وارانہ اداروں میں داخلے لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید 40 طلبہ خود تعلیمی اخراجات برداشت کرکے نشستیں حاصل کرسکتے ہیں۔

دی کشمیر فائلز: کشمیری پنڈتوں پر ظلم کی پوری داستان یا آدھا سچ؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قائم طبی کالجوں میں بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے چھ فی صد نشستیں رکھی گئی ہیں۔ ان کالجوں میں مجموعی طور پر بھارتی کشمیر کے دو درجن سے زائد طلبہ کو ہر سال داخلہ دیا جاتا تھا۔

بھارت کو اعتراض کیوں ہے؟

مئی 2019 میں بھارتی حکام نے کشمیری اسٹوڈنٹس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر نہ جانے کا مشورہ یہ کہہ کر دیا تھا کہ بھارتی حکومت وہاں پڑھائے جانے والے کورسز کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔

بھارت کے یو جی سی نے واضح کیا تھا کہ اس کے بقول پاکستانی کشمیر بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے جس پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے اور وہاں کے تعلیمی اداروں کونہ تو حکومتِ ہند نے قائم کیا ہے اور نہ ہی بھارت کے متعلقہ ادارےجن میں یو جی سی ، آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن اور میڈیکل کونسل آف انڈیا شامل ہیں ان کو تسلیم کرتے ہیں-

اےآئی سی ٹی ای نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری اور جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو خطوط کے ذریعے تاکید کی تھی کہ وہ ریاست کے طلبہ کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے باز رکھیں اور انہیں اس کے منفی نتائج اور مضمرات کے بارے میں خبردار کریں۔

البتہ دسمبر 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے ایک ایسی ہی طالبہ ہادیہ چشتی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا زیرِ انتظام کشمیر بھارت کا ایک حصہ ہے لہٰذا بھارت کی وزارتِ داخلہ کو اس معاملے میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

ہادیہ چشتی نےپاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک طبی کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن میڈیکل کونسل آف انڈیا نے ان کی رجسٹریشن التوا میں ڈال دی تھی۔

سرینگر: ٹیولپ گارڈن کے پھول وقت سے پہلے مرجھانے لگے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:45 0:00

جون 2020 میں بھارتی حکام نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے وفاق کے زیرِ کنٹرول جموں و کشمیر اور لدا خ علاقوں کے طلبہ کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت ،بلتستان کے طبی اور دوسرے پیشہ ورانہ اور غیر پیشہ ورانہ اداروں میں داخلہ لینے سے منع کردیا تھا اور انہیں خبر دار کیا تھا کہ ان اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریاں اور اسناد بھارت میں تسلیم نہیں کی جائیں گی۔

بھارت میں تیکنیکی تعلیم کو ریگیولیٹ کرنے والی آل انڈین کونسل فار دی ٹیکنیکل ایجوکیشن (اے آئی سی ٹی ای) نے ایک پبلک ایڈوائزری میں کہا تھا کہ طلبہ نام نہاد آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جو اس وقت بقول ان کے پاکستان کے ناجائز قبضے میں ہیں، ان کے کسی کالج، یونیورسٹی یا تیکنیکی ادارے کے کورسزکے لیے داخلہ نہ لیں کیونکہ انہیں بھارت نے قائم کیا ہے اور نہ ان سے حاصل کی گئیں سندیں بھارت میں تسلیم کی جاتی ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG