رسائی کے لنکس

پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی، بھارت کو نئی حکومت سے کیا امید ہو سکتی ہے؟


Pakistan Flag Flags India
Pakistan Flag Flags India

بھارت پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونے کی سرگرمیوں پرگہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارت محتاط انداز میں تعلقات میں بہتری کی امید کر رہا ہے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی اسلام آباد کے حالات کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے بیشتر نیوز چینلز پر پورا پورا دن پاکستان کی صورتِ حال پر مباحثے ہو رہے ہیں۔

ان مباحثوں میں نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کے مبصرین کو بھی شامل کیا جا رہا ہے اور وہ بھی وہاں کی تازہ ترین صورتِ حال کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ بعض نیوز چینلز پر پاکستانی نشریاتی اداروں کی رپورٹس بھی دکھائی جا رہی ہیں۔

نئی دہلی میں مبصرین کے مطابق پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی سے بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو سکتا ہے اور اس تبدیلی کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سمیت کئی اخباروں نے بھی ایسے ہی اداریےلکھے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہےکہ پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے البتہ پھر بھی عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ وزیرِ اعظم کی تبدیلی کا اختیار فوجی ہیڈ کوارٹرز کے پاس ہے۔

سفارتی امور کے تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) جے ایس سوڈھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج آج بھی اتنی ہی طاقتور ہے جتنی پہلے تھی۔ دفاع، خارجہ اور اقتصادی امور میں فوج ہی فیصلے کرتی ہے۔

ان کے خیال میں جب وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کے تقرر کے سلسلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھیجی ہوئی فائل پر چار ماہ تک کوئی فیصلہ نہیں کیا اسی وقت یہ طے ہو گیا تھا کہ اب عمران خان کو جانا ہے۔

سینئر تجزیہ کار سعید نقوی کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ نے عمران خان کو طیب ایردوان بننے کا لائسنس دے دیا ہے۔ جس طرح ترکی کے ایردوان نے انتخابات کے دوران امریکہ مخالف منشور کو گھر گھر پہنچایا تھا اسی طرح عمران خان بھی امریکی مخالفت کو گھر گھر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

ان کے مطابق پاکستان اسلاموفوبیا کے حوالے سے امریکہ سے شکوہ کرتا رہاہے۔ اب امریکہ کی مخالفت پاکستان میں یقینی طور پر ایک انتخابی نعرہ بن جائے گی۔

بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان کے عوام او ربالخصوص نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اگر جلد انتخابات ہو جائیں تو عمران خان کامیاب ہو جائیں گے۔

شہباز شریف سے پاکستان بھارت تعلقات بہتر کرنے کی امید

عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی ہے تو شہباز شریف کو نئی دہلی میں ایک مہذب سیاست دان کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے 2013 میں بھارت کا دورہ کیا تھا اور اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیر تجارت آنند شرما سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کیا تھا۔

سابق سفارت کار جے کے ترپاٹھی بھی شہباز شریف کو ایک سلجھا ہوا سیاست دان سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری لائیں گے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ملک کے داخلی امور سے نظر ہٹا کر دوسری جانب توجہ دے سکیں۔ اگر قبل از وقت انتخابات نہیں ہوئے تب بھی ان کے پاس صرف ڈیڑھ سال کا ہی وقت ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دوسرے مبصرین کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ حکومت کی تبدیلی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے خوش آئند ثابت ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اندرونی معاملہ ہے لیکن بھارت کے لیے یہ بات اہم اور ضروری ہے کہ اس کے پڑوسی ممالک میں جو بھی حکومتیں ہوں وہ مستحکم ہوں۔ بھارت پاکستان میں بھی ایک مستحکم حکومت چاہتا ہے۔

پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت مستحکم ہو گی تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ اس کی پالیسیاں کیا ہیں اور یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اگر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے۔ اگر شہباز شریف کی حکومت مستحکم ثابت ہوتی ہے تو وہ بھارت کے لیے ایک اچھی بات ہوگی۔

ان کے مطابق ویسے بھی نواز شریف کا دور حکومت عمران خان کی حکومت کے مقابلے میں بھارت کے لیے زیادہ بہتر رہا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے زمانے میں بھی دونوں طرف سے خارجہ پالیسی پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی۔

روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ابھی تک پاکستان کی فوجی قیادت بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے البتہ اب پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تجارت و معیشت کے سلسلے میں موافق بیانات دیے ہیں۔

اخبار کے خیال میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت نومبر میں ختم ہو رہی ہے البتہ اگر کوئی نیا ورق پلٹا جاتا ہے تو بھارت کو اس پر کھلے دل و دماغ سے جواب دینا چاہیے۔

بعض اخبارات نے اداریوں میں خیال ظاہر کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں کرونا وبا کے دوران اقتصادی معاملات میں بد انتظامی کا اتنا ہاتھ نہیں ہو سکتا جتنا کہ امریکہ مخالف اور چین حامی پالیسیوں کا ہو سکتا ہے۔

جے کے ترپاٹھی کے خیال میں دونوں ملک بڑے مسائل کو الگ رکھ کر پہلے بحالی اعتماد کے اقدامات کر سکتے ہیں۔ان کے خیال میں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات ہونی چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 72 برس سے سنگین بنا ہوا ہے۔

ان کے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان سب سے پہلے تجارت شروع ہونی چاہیے۔ ضروری اشیا کی سپلائی شروع ہو۔

وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان چینی دبئی بھیجتا ہے وہاں سے بھارت خریدتا ہے۔ اسی طرح بھارت ادویات دبئی او ربرطانیہ بھیجتا ہے وہاں سے پاکستان خریدتا ہے۔ اس میں درمیانی شخص کا فائدہ ہوتا ہے اور دونوں ممالک کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر یہی خرید فروخت براہِ راست ہو تو دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ علاج معالجے کا سلسلہ بھی شروع ہونا چاہیے۔ بھارت نے راستہ کھول دیا ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی طرف سے کچھ دشواریاں ہیں۔ عمران خان کی حکومت کچھ پابندیاں لگا رہی تھی۔ ایک دوسرے ملک میں طلبہ اور عوامی نمائندوں کی آمد و رفت بھی ہو سکتی ہے۔

وہ دونوں ممالک کے سفارت خانوں کے عملے کو مکمل کرنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے کئی پلیٹ فارمز ہیں جیسے کہ شنگھائی کوآپریشن موومنٹ، جن میں دونوں ملک مل کر کام کر سکتے ہیں۔

ان کے خیال میں جنوب ایشیائی تعاون تنظیم سارک کو بحال کیا جانا چاہیے۔ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔


وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے دور میں باہمی تجارتی رشتے قائم تھے۔ دونوں ممالک کو موسٹ فیورٹ نیشن (ایم ایف این) کا درجہ ملا ہوا تھا۔ اگر دونوں ملک اس سلسلے میں پہلے آگے بڑھتے ہیں تو باہمی اعتماد پیدا ہوگا اور پھر دوسرے مسائل کے حل کی سمت میں بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کالعدم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کو پاکستان کی ایک انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے 32 سال کی سزا سنائے جانے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اگر پاکستان کی حکومت دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کے مزید اقدامات اٹھاتی ہے تو بھارت کو مذاکرات سے کوئی گریز نہیں ہوگا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بیان بازی میں تحمل سے کام لیا جائے۔ خاص طور پر سیاست دانوں کی جانب سے ایسی باتیں نہ کی جائیں جو ماحول کو خراب کریں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG