رسائی کے لنکس

بھارتی حکومت نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی لگا دی


فائل
فائل

جے کے ایل ایف بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان میں بھی سرگرم ہے۔ نیز اس کے دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں یونٹ کام کر رہے ہیں۔

نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے نامعلوم افسران کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ جے کے ایل ایف پر ’’غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون‘‘ کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے، ’’کیونکہ اس بات کے نا قابلِ تردید شواہد اور ثبوت موجود ہیں کہ یہ تنظیم بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں علحیدگی اور افتراق پسندی کو فروغ دے رہی ہے‘‘۔

جے کے ایل ایف متنازعہ ریاست جموں و کشمیر، جو 1948 سے پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام حصوں میں بٹی ہوئی ہے، کے اتحادِ نو کے حق میں ہے، تاکہ، بقول اُس کے، اسے ایک آزاد اور خود مختار ملک بنایا جا سکے۔ جے کے ایل ایف بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان میں بھی سرگرم ہے۔ نیز اس کے دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں یونٹ کام کر رہے ہیں۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں جے کے ایل ایف کی قیادت سرکردہ آزادی پسند لیڈر محمد یاسین ملک کر رہے ہیں، جنہیں پولیس نے حال ہی میں حراست میں لیا تھا اور بعد میں انہیں ریاست میں 1978ء سے نافذ سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کرکے جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کر دیا تھا۔

جے کے ایل ایف استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی بھارتی کشمیر کی دوسری تنظیم ہے، جس پر اس ماہ پابندی لگادی گئی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں بھارتی حکومت نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لئے پابندی عائد کی تھی۔

بھارتی وزارتِ داخلہ نے تنظیم پر ’’ملک دشمن اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے، اس پر ’’غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت‘‘ پانچ سال کے لئے پابندی عائد کی ہے۔

اس سلسلے میں، وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’’جماعت اسلامی جموں و کشمیر ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جو اندرونی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے متضاد ہیں‘‘۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی کے جنگجو تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور جموں و کشمیر (بھارتی زیرِ انتظام کشمیر) و دیگر مقامات پر انتہا پسندی اور عسکریت کی حمایت کرتی ہے‘‘۔

جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کرنے سے چند روز پہلے پولیس نے اس کے امیر ڈاکٹر عبد الحمید فیاض، ترجمان زاہد علی اور دوسرے عہدیداروں سمیت 200کے قریب ارکان کو گرفتار کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

جے کے ایل ایف پر پابندی عائد کئے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بھارت کے سیکریٹری داخلہ راجیو گوبا نے نئی دہلی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’یہ اقدام غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق ایکٹ (1967) کی دفعہ 3 (1) کے تحت اٹھایا گیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ جے کے ایل ایف ہی ہے جس نے 1988 میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کا آغاز کیا تھا‘‘، اور اُن کے بقول، ’’دہشت گردی کے کئی واقعات میں جن میں کشمیری ہندؤں (پنڈتوں) کو ہلاک کرنا بھی شامل ہے ملوث رہا ہے‘‘۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا ہے کہ ’’تنظیم نے اگرچہ 1994 میں بندوق کو خیر باد کہا تھا؛ لیکن، اس نے علحیدگی پسند سرگرمیاں جاری رکھیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’جے کے ایل ایف دسمبر 1989 میں اُس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا اور بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل جیسے واقعات میں بھی ملوث رہا ہے‘‘۔

اُن کے مطابق، جے کے ایل ایف کے خلاف بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے 37 ایف آئی آر درج کر رکھے ہیں۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں علحیدگی کی سرگرمیوں کا، جو ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے خطرہ ہیں، قلع قمع کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG