رسائی کے لنکس

بھارت: اقلیتوں کے بجٹ میں کٹوتی پر مسلم کمیونٹی کا شکوہ


 بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بدھ کو بھارتی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا تھا۔
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بدھ کو بھارتی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا تھا۔

بھارت کی حکومت نے مالی سال 2024-2023 کے لیے بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں جہاں دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے تو وہیں اقلیتوں اور مسلم کمیونٹی کی جانب سے یہ گلہ کیا جا رہا ہے کہ بجٹ میں اُن کے لیے خاطر خواہ رقم نہیں رکھی گئی۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بدھ کو 2024-2023 کے لیے جو مرکزی بجٹ پیش کیا اس میں اقلیتی امور کی وزار ت کے بجٹ میں 38 فی صد کمی کر دی گئی ہے۔ گزشتہ سال اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ پانچ ہزار کروڑ کے لگ بھگ تھا جو اب تین ہزار 97 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح اقلیتوں کے تعلیمی فروغ کے لیے گزشتہ سال کا بجٹ 2515 کروڑ روپے سے کم کر کے 1689 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

مرکزی بجٹ میں سب سے زیادہ دھچکہ اقلیتوں کے لیے جاری پری میٹرک اسکالرشپ کو لگا ہے۔ اس سے قبل اس کا بجٹ 1425 کروڑ روپے تھا جو اب محض 433 کروڑ روپے رہ گیا۔ اقلیتی طبقات کے طلبہ کے لیے میرٹ کی بنیاد پر دی جانے والی اسکالرشپ میں 87 فی صد کی کٹوتی کی گئی ہے۔

نرملا سیتا رمن کی جانب سے پیش کیے جانے والے مرکزی بجٹ میں ’مدرسہ مائنارٹی ایجوکیشن‘ کے لیے گزشتہ سال 160 کروڑ روپے رکھے گئے تھے جو کہ اب محض 10 کروڑ رہ گئے ہیں۔

تاہم پوسٹ میٹرک اسکالر شپ میں اضافہ کرکے اسے گزشتہ سال کے 515 کروڑ روپے کو بڑھا کر 1065 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نئی اسکیم ’پی ایم وکاس‘ شروع کی گئی ہے جس کے لیے 540 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔


ماہر تعلیم، انسانی حقوق کے کارکن اور مصنف ڈاکٹر اشوک کما رپانڈے کا کہنا ہے کہ بھارت کا آئین اقلیتوں، دلتوں، پسماندہ اور محروم طبقات اور خواتین کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کو آگے بڑھانے کی بات کرتا ہے۔ لیکن جب حکومت مدرسوں کے بجٹ میں 150 کروڑ روپے کی کٹوتی اور دیگر طبقات کے بجٹ میں اضافہ کرتی ہے تو اس سے اس کی ترجیحات کا پتا چلتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے قرآن بھی چھین لینا چاہتی ہے اور کمپوٹر بھی۔ خیال رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم اسٹوڈنٹس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے میں کمپیوٹر۔

اقلیتی اسٹوڈنٹس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برسوں سے جاری مولانا آزاد فیلوشپ کو حکومت نے پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اقلیتی بالخصوص مسلم طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اس کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بھی بیشتر طلبہ مستفید ہو رہے تھے۔

ڈاکٹر اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ بار بار یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں خلیجی ملکوں سے پیسہ آتا ہے۔ اب جب کہ حکومت نے یہ فیلوشپ بند کر دی ہے تو اگر واقعی پیسہ آتا ہے تو اسٹوڈنٹس اس پیسے کا سہارا لیں گے۔ کیوں کہ بہرحال ان کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیسہ چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت ایک اسٹوڈنٹ سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھینے گی تو وہ پڑھائی چھوڑ کر دوسری طرف اپنی توجہ مبذول کرے گا۔ شاید حکومت نہیں چاہتی کہ کشمیری نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مین اسٹریم میں شامل ہوں۔

ان کے خیال میں جو بجٹ کم کیاگیا ہے وہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ حکومت خسارے میں چلی جاتی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقلیتی طبقات کی تعلیم کے سلسلے میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔


آل انڈیا مجلس اتحا دالمسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اقلیتی طلبہ کے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کی مذمت کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم نریند رمودی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں 40 فی صد کی کمی کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ صرف نعرہ لگانا ہی کافی ہے۔

بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی اور جاننا چاہا کہ کیا حکومت مولانا آزاد فیلوشپ کو دوبارہ جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس پر اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے کہا کہ چونکہ اقلیتوں کے لیے پہلے سے ہی متعدد اسکیمیں چل رہی ہیں اور مذکورہ اسکیم ان سے متصادم ہے لہٰذا اسے بند کر دیا گیا اور اب اسے دوبارہ جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت ایک طرف پسماندہ مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف اقلیتی طبقات کے تعلیمی فروغ کو روکنا چاہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس قدم سے 2024 میں انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈاکٹر اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے تعلیمی بجٹ میں کمی کے نام پر مسلم مخالف ووٹوں کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اقلیتی طبقات کی تعلیمی پسماندگی سے آگے چل کر ملک کو جو نقصان ہوگا حکومت اس کو نہیں دیکھنا چاہتی۔

واضح رہے کہ حکومت مذہب، ذات برادری یا طبقات کی بنیاد پر امتیاز کرنے کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا یہ مؤقف ہے کہ حکومت سب کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتی ہے اور اس کے عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں سے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG