رسائی کے لنکس

بھارت اور چین نے متنازع پینگونگ جھیل سے افواج کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور چین نے مشرقی لداخ میں اپنی اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں جمعرات کو پالیسی بیان دیتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی ساحلوں پر فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا معاہدہ طے پایا ہے۔

اس سے قبل بدھ کو چین کی وزراتِ دفاع کے ترجمان کرنل او قیانگ نے کہا تھا کہ پینگونگ جھیل کے شمالی و جنوبی ساحلوں پر اگلی چوکیوں پر تعینات دونوں ملکوں کے فوجیوں نے بیک وقت اور مربوط انداز میں پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔

راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں کہا کہ معاہدے کے تحت فریقین اگلی چوکیوں پر تعینات اپنے جوانوں کو مربوط اور قابل تصدیق انداز میں پیچھے ہٹائیں گے۔

اُن کے مطابق معاہدے کے تحت بدھ سے ہی پینگونگ جھیل کے شمالی و جنوبی ساحلوں سے افواج کی واپسی پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔

بھارتی وزیرِ دفاع کے بقول، "فریقین نے پینگونگ جھیل سے افواج کی مکمل واپسی کے 48 گھنٹے کے بعد دیگر تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے سینئر کمانڈروں کی سطح پر بات چیت پر بھی رضا مندی ظاہر کی ہے۔"

راج ناتھ سنگھ نے ایوان کو بتایا کہ معاہدے کے مطابق چین اپنی افواج کو فنگر ایٹ کے مقام سے مشرق کی جانب اور اسی طرح بھارت اپنی فوج کو فنگر تھری کے مقام کے پاس مستقل بیس دھن سنگھ تھاپا پوسٹ تک محدود رکھے گا۔

بھارتی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ فوجی کی اسی طرز پر واپسی جنوبی ساحلی علاقوں میں بھی کی جائے گی۔

اُن کے بقول شمالی اور جنوبی ساحلوں پر اپریل 2020 کے بعد جو بھی تعمیرات کی گئی ہیں انہیں ہٹا دیا جائے گا اور پہلے والی پوزیشن بحال کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ شمالی ساحل پر افواج کی سرگرمیاں، جن میں روایتی مقامات پر گشت بھی شامل ہے، عارضی طور پر ملتوی کر دی جائیں گی۔

لداخ تنازع: بھارتی کشمیر میں فوجی نقل و حرکت میں اضافہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:42 0:00

انہوں نے ایوان کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ چین سے بات چیت کے دوران بھارت نے کچھ بھی نہیں کھویا۔ تاہم مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوول کنٹرول پر تعیناتی اور گشت سے متعلق کچھ تنازعات اب بھی باقی ہیں جن پر آئندہ ملاقاتوں میں تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔

بھارت کے سینئر تجزیہ کار اور ہفت روزہ 'چوتھی دنیا' کے ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کا ایوان میں بیان نامکمل ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ چین نے بھارتی زمین پر جو قبضہ کیا ہے اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا۔

بھارت کی جانب سے مسلسل یہ مؤقف اپنایا جاتا رہا ہے کہ چین نے ان کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لداخ رکن پارلیمنٹ نے بھی کہا تھا کہ چین نے بھارت کے کئی مواضعات پر قبضہ کر رکھا ہے۔

سنتوش بھارتیہ کے بقول چین کے زیرِ قبضہ بھارتی سرزمین کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اسے ایوان میں کیوں نہیں بتایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے چین کے خلاف اندرونِ ملک ایک ماحول بنایا اور لوگوں کے جذبات کو ابھارا جس کی وجہ سے یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہو سکا۔

ان کے بقول حکومت نے عسکری انداز میں چین کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جس میں 20 اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ راج ناتھ سنگھ کہ چکے ہیں کہ بھارت کی 38 ہزار مربع کلو میٹر زمین پر چین نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن وہ اپنی ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑیں گے۔

اس سلسلے میں چین کا مؤقف ہے کہ اس نے کسی بھی ملک کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا اور اس کی فوج نے کبھی سرحد عبور نہیں کی۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان لداخ کے سرد ترین پہاڑی علاقے میں مئی میں تنازع شروع ہوا جس کے بعد جون میں اس تنازع میں اُس وقت شدت آئی جب ایک جھڑپ میں 20 بھارتی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے مذکورہ جھڑپ کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ چین کے 30 سے 40 فوجی ہلاک ہوئے۔ تاہم چین نے ابتدا میں اس پر کوئی بیان نہیں دیا اور بعدازاں چین نے کچھ جانی نقصان کا اعتراف کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG