رسائی کے لنکس

سرجیکل اسٹرائیک کی زیادہ تشہیر سے کچھ حاصل نہیں ہوا؛ پرنب مکھرجی کی کتاب کا اقتباس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے سابق صدر آنجہانی پرنب مکھرجی نے اپنی یادداشت 'صدارتی سال: 2012 سے2017 تک' میں لکھا ہے کہ بھارت کی فوج کے 2016 میں کی جانے والی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت سے زیادہ تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کارروائی کے بارے میں بہت زیادہ بات کرنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

ان کے مطابق پاکستان کی کارروائیوں کے جواب میں بھارت ایسے اقدامات کرتا رہتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ معمول کی کارروائی ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے اُڑی میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے 10 روز بعد نئی دہلی نے پاکستان میں ایک کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا تھا جسے سرجیکل اسٹرائیک کا نام دیا گیا تھا۔ اُڑی حملے میں بھارت کے 18 فوجی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔

دوسری جانب اسلام آباد کا مؤقف رہا ہے کہ پاکستان مین کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہوئی تھی۔

پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب میں پاکستان بھارت تعلقات اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کے متعدد اقدامات پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔

سرجیکل اسٹرائیک کے سلسلے میں ردِ عمل معلوم کرنے کے لیے جب بعض سابق سفارت کاروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ انہوں نے ابھی یہ کتاب پڑھی نہیں ہے۔

لیکن بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ پرنب مکھرجی خود وزیرِ دفاع رہ چکے تھے۔ اس لیے ان کو معلوم تھا کہ ایسے امور پر کیسا ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔

'سرجیکل اسٹرائیک سے کشیدگی میں اضافہ ہوا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:17 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد مرزا نے کہا کہ بھارت نے جس طرح مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کا پروپیگنڈا کیا تھا، پرنب مکھرجی کی نظر میں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ان کے بقول بھارت اور پاکستان کی سرحد پر دونوں ممالک میں ایسی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے تو کبھی کسی کا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اڑی میں دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کی کارروائی کے بارے میں پرنب مکھرجی کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت کو اس عمل سے باز رہنا چاہیے تھا۔ اگر ہم ایسے واقعات سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو اس سے فوج کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور عوام میں ایک غلط تصویر بنتی ہے۔

اسد مرزا کا کہنا ہے کہ در اصل بھارت کی حکومت اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ جس طرح میڈیا کے ذریعے اسے منظرِ عام پر لایا گیا اور عوام کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت کی فوج نے ایک بڑی فتح حاصل کی ہے۔ شاید اس قسم کی کوئی چیز عملاً رونما نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ مناسب نہیں کہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔

'بھارت کو عمران خان سے بات چیت کرنی چاہیے'

پرنب مکھرجی نے عمران خان کے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونے کو ایک دلچسپ واقعہ قرار دیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ بھارت کو عمران خان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہے۔

ان کے مطابق عمران خان سیاست دانوں کی اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو آزادی کے بعد پیدا ہوئی ہے اور جس کے کندھے پر تقسیم سے قبل کی سیاست کا بوجھ نہیں ہے۔

اسد مرزا بھی دونوں ملکوں میں مذاکرات پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پرنب مکھرجی ایک بہت باشعور سیاست دان رہے ہیں۔ اندرا گاندھی سے لے کر متعدد وزرائے اعظم کے ساتھ انہوں نے کام کیا تھا اور خارجہ و دفاع سمیت متعدد وزارتیں انہوں نے سنبھالی تھیں۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ بھارت کو عمران خان سے بات چیت کرنی چاہیے، اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ایسی سیاسی شخصیت کا ظہور ہوا ہے جس کو عوام کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

پاک بھارت کشیدگی کسی ملک کے مفاد میں نہیں: پاکستانی سفیر
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:44 0:00

ان کے مطابق عمران خان پاکستان میں ایک نئی سوچ کے ساتھ سیاسی استحکام قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوامی مفاد کے متعدد فیصلے کیے ہیں جس سے پاکستان کی موجودہ قیادت کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جو ان کے ملک کے لیے تو مثبت ہیں، خطے کے لیے بھی مفید ہیں۔ اس لیے پرنب مکھرجی چاہتے تھے کہ ایسی قیادت کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے جو خطے میں امن و استحکام کی خواہاں ہو۔

ایک اور تجزیہ کار آلوک موہن بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بات چیت نہ صرف دونوں ممالک کے اور اس خطے کے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مفاد میں ہے۔

پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ نریندر مودی جب پہلی بار وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، تو ان کے پاس خارجہ امور کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور اسی حیثیت سے انہوں نے کچھ ممالک کے دورے کیے تھے۔

ان کے بقول اس کے باوجود انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے، خاص طور پر اپنی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کرنا، ان کے ان اقدامات پر خارجہ امور کے ماہرین کو حیرت ہوئی تھی۔

پرنب مکھرجی کے خیال میں نریندر مودی کو پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیٹی سے متعلق تقریب میں شرکت کے لیے اچانک لاہور جانا بھی کافی حیرت انگیز تھا۔ اس وقت جو حالات تھے ان کے پیش نظر ان کا یہ اقدام غیر ضروری تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG