رسائی کے لنکس

مشرقی لداخ میں چین کے حالیہ اقدامات پر بھارت برہم کیوں ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت نے مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل پر چین کی جانب سے پل تعمیر کرنے اور ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کے ناموں کو تبدیل کرنے پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

مبصرین کے مطابق اس انکشاف کے بعد کہ چین نے مشرقی لداخ میں بھارت کے زیر انتظام علاقے کے بالمقابل لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر 60 ہزار فوجی جوان تعینات کر رکھے ہیں، بھارت کے ردِعمل کو اس کی جانب سے چین کو ایک سخت پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو ایک ورچوئل نیوز کانفرنس میں کہا کہ بھارت صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق چین پینگانگ جھیل پر جہاں پل بنا رہا ہے اس علاقے پر اس نے 60 برس سے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے جسے بھارت نے تسلیم نہیں کیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق چین مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر اپنی جانب بنیادی ڈھانچے کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ جس پل کی تعمیر کر رہا ہے اس سے جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کے درمیان چینی افواج کی تیز رفتار نقل و حرکت اور رسائی میں آسانی ہو گی۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ پل جھیل کے شمالی ساحل پر فنگر آٹھ نامی مقام سے 20 کلو میٹر مشرق میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے مطابق وہاں سے ایل اے سی گزرتی ہے۔

چین بھارت کے اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے کہ اس نے بھارت کے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

چین اور بھارتی کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان 2020 میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
چین اور بھارتی کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان 2020 میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے ایل اے سی کے حوالے سے دونوں کی اپنی اپنی آرا ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر قبضے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔

ارندم باگچی نے کہا کہ حکومت بھارت کے سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ اس کے تحت گزشتہ سات برس کے دوران حکومت نے سرحد پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سڑکیں اور پل بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے اروناچل پردیش کے 15 مقامات کے ناموں کی تبدیلی پر کہا کہ ہم نے جب اس سلسلے میں رپورٹس دیکھیں تو ہم نے اسی وقت چین پر اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک مضحکہ خیز اقدام ہے۔

ان کے مطابق ناموں کی تبدیلی سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ اروناچل پردیش بھارت کا لازمی حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

یاد رہے کہ چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اور بھارت کے سیاست دانوں کے اروناچل دورے پر اعتراضات کرتا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اروناچل جنوبی تبت کا حصہ ہے۔

رپورٹس کے مطابق چین نے دوسری مرتبہ اروناچل پردیش کے مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں۔ قبل ازیں 2017 میں اس نے چھ مقامات کے نام تبدیل کیے تھے۔

ترجمان نے کہا کہ بھارت کو امید ہے کہ چین اس قسم کے اقدامات کے بجائے ایل اے سی کے مغربی سیکٹر میں جن علاقوں پر تنازعات ہیں ان کو حل کرنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر تعمیری انداز میں کام کرے گا۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00

اسی درمیان 23 دسمبر کو جلاوطن تبت پارلیمنٹ کی جانب سے نئی دہلی میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں مرکزی حکومت کے دو جونیئر وزار راجیو چندر شیکھر اور میناکشی لیکھی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے متعدد اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی۔

ایک ہفتے کے بعد نئی دہلی کے چینی سفارت خانے کے پولیٹیکل قونصلر نے مذکورہ اراکینِ پارلیمنٹ کو خط لکھ کر عشائیے میں ان کی شرکت پر اعتراض کیا اور کہا کہ چین ’تبتن انڈپینڈنٹ فورس‘ کی جانب سے کسی بھی قسم کی چین مخالف علیحدگی پسندانہ سرگرمی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس خط کے جواب میں راجیو چندر شیکھر نے کہا کہ وہ ’آل پارٹی انڈین پارلیمنٹری فورم فار تبت‘ کے کنونیئر ہیں اور انہوں نے اپنی اسی حیثیت میں عشائیے میں شرکت کی تھی۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ خط کا مواد اور لب و لہجہ نامناسب ہے۔ چینی فریق کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک متحرک جمہوریت ہے اور اراکینِ پارلیمنٹ عوامی نمائندوں کی حیثیت میں اپنے خیالات و نظریات کے مطابق اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔

قبل ازیں حکومت کے ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ چین نے اس سرد موسم میں بھی بھارتی سرحد کے قریب مشرقی لداخ میں اپنے 60 ہزار فوجی جوان تعینات کر رکھے ہیں۔ اس نے نئے سال پر وہاں اپنا جھنڈا بھی لہرایا۔ اس کے علاوہ وہ ایل اے سی پر بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا رہا ہے۔

بعد میں بھارتی فوج کی جانب سے بھی جھنڈا لہرانے کی خبر آئی۔

خبروں کے مطابق بھارت نے بھی لگ بھگ اتنے ہی فوجی جوان ایل اے سی پر اپنی سرحد کے اندر تعینات کر رکھے ہیں۔ وہ بھی سڑکوں کی تعمیر کر رہا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو فروغ دے رہا ہے۔

خیال رہے کہ اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی حد بندی پر تنازع ہے۔

جون 2020 میں یہ تنازع تصادم کی شکل اختیار کر گیا تھا جب 15 اور 16 جون کی شب ہونے وادی گلوان میں ہونے والی ایک جھڑپ میں 20 بھارتی فوج ہلاک ہو گئے تھے۔

واقعے کے بعد چین نے اپنی فوج کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیلات نہیں دی تھیں، لیکن چند ماہ بعد چین نے اعتراف کیا تھا کہ اس جھڑپ میں اس کے بھی چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

سرحدی تنازع پر ہونے والی اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اور سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چین نے سال 2021 کے اواخر اور 2022 کے اوائل ہی میں ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید خرابی اور باہمی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

فریقین نے سرحدی تنازع کو حل کرنے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے مقصد سے ملٹری کمانڈرز کی سطح پر 13 دور کے مذاکرات کیے ہیں جو بیشتر بے نتیجہ رہے۔ البتہ مذاکرات کی وجہ سے بعض متنازع مقامات سے دونوں ملکوں کی افواج واپس ہوئی ہیں۔

فریقین میں اگلے دور کے مذاکرات کے لیے اتفاقِ رائے ہو گیا ہے لیکن ابھی تاریخ مقرر نہیں کی جا سکی۔

ذرائع کے مطابق بھارت نے اس بارے میں چین کو دو تجاویز دی ہیں لیکن چین کی جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان ہمیشہ سردیوں میں کشیدگی رہتی ہے۔ اس سردی کے موسم میں بھی دونوں میں کشیدگی ہے اور وہ بڑھ گئی ہے۔

ان کے بقول چین نے مشرقی لداخ میں بڑی تعداد میں جوان اور ہتھیار تعینات کر رکھے ہیں اور لگ بھگ اتنی ہی تعیناتی بھارت کی طرف سے بھی ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر متنازع مقامات پر ایک دوسرے کے بالمقابل موجود ہیں۔

ان کے مطابق چین وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے یا بیان دیتا ہے کہ مسئلہ پھر ابھر آتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازع پر الگ سے گفتگو ہو گی باقی رشتے معمول کے مطابق قائم رہنے چاہئیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ جب سرحد پر لڑائی کا ماحول بنا ہوا ہے تو رشتے کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین نے نئے سال پر گلوان وادی میں چینی جھنڈا لہرانے کی جو ویڈیو جاری کی ہے وہ جعلی ہے۔ وہ گلوان وادی کی نہیں ہے کہیں اور کی ہے۔ البتہ بھارتی فوج نے اگلے روز گلوان کے اندر اپنا جھنڈا لہرایا اور اس کی تصویر وائرل کر دی۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے بھارت کی جانب سے پہلی بار سخت بیان نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے بھی سخت بیانات آتے رہے ہیں۔ لیکن وہ صرف بیانات کی حد تک محدود رہتا ہے چینی کوششوں کو روکنے کے لیے کوئی جامع طریقہ کار اختیار نہیں کرتا۔ ان کے بقول سرحد پر بھارت کا رویہ جارحانہ نہیں مدافعانہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چین بھارتی سرحد کے اندر دراندازی کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے ہی جون 2020 میں گلوان کا حادثہ پیش آیا تھا۔

ان کے خیال میں ایک طرف جہاں فریقین میں سرحدی کشیدگی ہے وہیں باہمی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کرونا وبا کے دوران بھی دونوں کی باہمی تجارت بڑھی ہے اور چونکہ چینی تجارتی مواقع سے بھارتی تاجر فائدہ اٹھا رہے اور بھارتی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے غالباً اس لیے بھی بھارت سرحد پر دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG