رسائی کے لنکس

کیا چین کے جے-10 طیارے بھارت کے پاس موجود رافیل کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟


افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا ہے کہ اگر چینی ساختہ جے-10 سی فائٹر جیٹ پاکستانی فضائیہ کے بیڑے میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے اس کی قوت میں مزید اضافہ ہو گا۔

قبل ازیں پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ چینی ساختہ جے-10 طیارے 23 مارچ کو یومِ پاکستان پر ہونے والی پریڈ میں فلائی پاسٹ کریں گے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے ان بیانات کے بعد اس امکان کو تقویت کو مل رہی ہے کہ پاکستان چین سے 25 جے-10 طیارے خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

میجر جنرل بابر افتحار نے اپنی پریس کانفرنس میں مزید کہا تھا کہ پاکستان اپنے حریفوں کی فوجی صلاحیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی دفاعی استعداد میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ بھارت نے پاکستان سے ملحقہ سرحد پر روسی ساختہ ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کر دیا ہے۔

کیا یہ طیارے بھارت کے پاس موجود رافیل طیاروں کا مقابلہ کر پائیں گے؟

لیکن پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ چینی ساختہ یہ طیارے کیا رافیل طیاروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

بعض دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ جے 10 سی فائٹر جیٹ بھارت کے حالیہ عرصہ میں فرانس سے حاصل کردہ رافیل طیاروں کا مکمل مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بعض شعبوں میں یہ جہاز اس سے بھی آگے ہے۔

جے 10سی طیارے کی خصوصیات

چینی طیارے جے 10 سی بنانے والی کمپنی چینگڈو ایئر کرافٹ انڈسٹری گروپ نے یہ طیارے 1980 کے عشرے میں بنانا شروع کیے اور مارچ 1998 میں اس طیارے نے پہلی پرواز بھری۔ 2005 میں اسے باقاعدہ طور پر پیپلز لبریشن آرمی میں شامل کیا گیا۔

اب تک جے 10 طیارے کے تین ورژن اے بی اور سی سامنے آ چکے ہیں اور جے 10سی ان میں سے کامیاب طیارہ سمجھا جاتا ہے۔

اس طیارے کے پروں کی ہیئت امریکی ساختہ ایف 16 طیاروں کی طرز پر ہے۔

سنگل انجن ملٹی رول جے 10سی طیارہ ڈیلٹا ونگز کا حامل جدید لڑاکا طیارہ ہے جو بیک وقت کئی اہداف کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ طیارہ پی ایل 15 میزائلوں سے لیس ہے جس کے ذریعے 200 کلو میٹر تک اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جے 10 سی طیارہ پاکستام اور چین کی مشترکہ مشق شاہین میں بھی حصہ لے چکا ہے۔ اس نے اس دوران تمام اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

'جے 10 سی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ساتھ ہو گا'

جے ایف 17 تھنڈر پراجیکٹ کا حصہ رہنے والے ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کہتے ہیں کہ 15 برس قبل جب ہم جے ایف 17 بنا رہے تھے تو چین نے اس وقت پاکستان کو یہ جہاز دینے کی پیش کش کی تھی۔

لیکن اس وقت ہمیں اس جہاز میں کچھ خامیاں نظر آئیں جس پر ہم نے جے ایف 17 کو ترجیح دی۔

اُن کے بقول چینی حکام نے ہماری باتوں کو نوٹ کیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جہاز میں بہتری آئی ہے۔ اب یہ جہاز جے ایف 17 تھنڈر سے بھی قدرے بہتر جہاز ہے۔ میرے خیال میں یہ جہاز لینے سے ہماری جنگی صلاحیت میں بہتری آئے گی۔

بھارتی رافیل طیارے کے مقابلہ میں یہ جہاز کیسا ہے اس پر ایئر مارشل شاہد لطیف نے کہا کہ یہ طیارہ رافیل سے بہتر ہے کیونکہ یہ طیارہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔

اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل جہاز ریڈار پر نظر نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جہاز میں جدید ساز و سامان شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے ایویانکس بہت جدید انداز کے ہیں۔ ریڈار بہت شان دار ہے اور ہدف کا نشانہ بنانے کی رینج ایف سولہ سے بہتر ہے۔

اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے بارے میں ایئر مارشل شاہد لطیف نے کہا کہ یہ طیارہ بنا ہی ایسے مواد سے ہے جو اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ہے لہذا یہ طیارہ پاکستان کے لیے بہت بہتر رہے گا۔

ماضی میں پاکستان اور چین کے اشتراک سے بننے والے جے ایف 17 تھنڈر میں روسی ساختہ انجن استعمال کیے جاتے تھے لیکن اس طیارے میں چینی ساختہ انجن استعمال کیے جا رہے ہیں۔

فرانس کے ساتھ معاہدے کے تحت رافیل طیاروں کی پہلی کھیپ گزشتہ برس بھارت پہنچی تھی۔
فرانس کے ساتھ معاہدے کے تحت رافیل طیاروں کی پہلی کھیپ گزشتہ برس بھارت پہنچی تھی۔

'پاکستان چینی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا ماہر ہے'

اسلام آباد میں سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر (ر) ڈاکٹر ضیاالحق شمسی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کے ممالک نت نئے جہازوں کو خریداری کے لیے دیکھتے رہتے ہیں۔

اُن کے بقول گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان نے جے ایف 17 اور امریکی ساختہ ایف سولہ بلاک 52 کے نئے ورژن حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان فرینچ، امریکی، چینی سسٹمز کو زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ روسی جہازوں کو پاکستانی انجینئرز اور پائلٹس نے کبھی استعمال نہیں کیا۔

اس لیے پاکستان ایک عرصہ سے نئے جہاز دیکھ رہا تھا اور اس مقصد کے لیے چینی جے 10 سی پاکستان فضائیہ کے لیے بہتر ہیں۔

اُن کے بقول ہمیں ایف سولہ اب پرانے والے نہیں بلکہ بلاک 52 اور اس کے بعد کے جہاز دیکھنے ہوں گے اور جب پاکستانی فضائیہ ایف سولہ اور جے ایف 17 کے ساتھ جے 10 سی طیاروں کا استعمال کرے تو یہ امتزاج بہت شان دار ہو سکتا ہے۔

بھارتی رافیل طیاروں کے مقابلہ میں اس جہاز کے بارے میں ڈاکٹر ضیا شمسی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں جہازوں کو انفرادی طور پر ایک دوسرے کے مدِمقابل نہیں کھڑا کیا جا سکتا اب صرف سسٹم کا مقابلہ دیکھنا ہوتا ہے۔

اُن کے بقول جے 10 سی اور رافیل کے سسٹمز میں سے دونوں جہاز انفرادی طور پر الگ الگ خصوصیات کے حامل ہیں۔ رافیل جہاز ڈیول انجن ہے جب کہ جے 10 سی سنگل انجن جہاز ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب پاکستانی پائلٹس سنگل انجن جہاز اڑانے کے ماہر ہیں جب کہ بھارتی پائلٹس سخوئی اور دیگر طیارے اڑانے کی وجہ سے ڈیول انجن طیاروں پر زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح رافیل کے ریڈار جے 10 سی کے مقابلہ میں بہتر ہیں جب کہ جے 10 سی کی نقل و حرکت اور فضا میں پرواز زیادہ بہتر ہے۔ سنگل انجن ہونے کی وجہ سے اس کے فیول کے اخراجات کم ہیں جب کہ رافیل میں فیول کا خرچ زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ضیا شمسی کہتے ہیں کہ اس کا براہ راست تقابلی جائزہ نہیں لیا جا سکتا لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میری نظر میں دونوں جہازوں میں انیس بیس کا فرق ہو گا۔ لیکن اگر قیمت کا جائزہ لیں تو اس میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان یہ جہاز کیوں لے رہا ہے۔

ڈاکٹر ضیا شمسی کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت صرف چین کے ساتھ نہیں بلکہ کئی ممالک کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’چین کے ساتھ کام کرنے کا مطلب چین پر انحصار نہیں ہے۔ بلکہ ہم چین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم چین کے ساتھ مل کر جہاز بنا رہے ہیں، ہم مینوفیکچرر ہیں۔ پاکستان خود کفیل نہیں ہے لیکن ہم چین کو سپورٹ کر رہے ہیں اور چین ہمیں سپورٹ کر رہا ہے۔‘‘

جے 10سی کے انجنز کے حوالے سے ڈاکٹر ضیا شمسی نے کہا کہ چین پہلے روسی انجن استعمال کر رہا تھا لیکن اب چین کا اپنا بنایا ہوا انجن استعمال کیا جا رہا ہے۔ روسی انجنز کے ساتھ کارکردگی کے کچھ ایشوز تھے لیکن اب چینی انجن بننے سے اس میں بہت بہتری آئی ہے اور یہ انجن روسی انجن سے بہتر ہیں۔

کیا جہاز خریدنے کا معاہدہ ہو چکا ہے؟

اس جہاز کی خریداری کے حوالے سے اب تک حکومتِ پاکستان کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم مقامی میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان پہلے مرحلہ میں 10 طیارے خریدے گا۔

شیخ رشید احمد نے اگرچہ ان جہازوں کی پاکستان میں 23 مارچ کو پرواز کا اعلان تو کیا ہے لیکن کیا یہ جہاز پاکستانی پائلٹس ملکیت کے ساتھ اڑائیں گے یا پھر چینی پائلٹس اڑائیں گے، اس بارے میں بھی اب تک حکومت کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

عام طور پر ایک جہاز خریدنے کے عمل سے قبل ایک طویل عرصہ پائلٹس اور انجینئرز کی تربیت کے لیے درکار ہوتا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں چین جائیں گے ۔ امکان ہے کہ اس دورے کے دوران اس جہاز کے حوالے سے بھی کوئی اعلان سامنے آ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG