بھارت کے موجودہ انتخابات میں، کسی بھی ملک کے الیکشن کی طرح، انتخابی مہم کے دوران مختلف پارٹیوں نے ایسے امور پر اپنی شکایات، الیکشن کمیشن آف انڈیا کو پہنچائیں جو ان کے خیال میں ’ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ‘ کی خلاف ورزی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے ایک راؤنڈ ٹیبل پروگرام میں بیشتر تجزیہ کاروں نے 2019 کے الیکشن سے ملنے والے سبق پر بات کر تے ہوئے کہا کہ انتخابی ڈھانچے سے متعلق جو سب سے اہم بات سامنے آئی ہے، وہ اس کمیشن کے تین ارکان کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انڈیا میں 1950ء میں الیکشن کمیشن میں صرف ایک چیف الیکشن کمشنر ہوتا تھا۔لیکن پھر الیکشن کمشنر ترمیم ایکٹ 1989ء کے تحت اس کو تین کمشنرز پر مشتمل ادارہ بنا دیا گیا، جن کا انتخاب حکو مت کرتی ہے۔ اور یہی طریقہ آج تک رائج ہے۔
انجلی بھرداج کا فورم شفافیت اور احتساب کے امور سے متعلق ہے۔ ان کی این جی او، عوام کی معلومات تک رسائی کے حق کے لیے کام کر تی ہے۔
ان کے خیال میں الیکشن کمیشن کے بارے میں شکایات کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے تینوں کمشنرز کا تعلق برسراقتدار پارٹی سے ہے جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس پر گزشتہ ستر برس سے عمل ہو رہا ہے اور بہت سی تنظیمیں اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ پیچیدگیوں پر گزشتہ برسوں میں بات کرتی رہی ہیں۔ لیکن بقول ان کے ’موجودہ الیکشن میں یہ مسائل زیادہ کھل کر سامنے آئے ہیں ۔جس نے تبدیلی کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی ان کے پاس شکایت آئے تو اس کو غیر جانبدار ہو کر سنیں۔ اور اگر ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ اس پر کسی امتیاز کے بغیر کام کریں تا کہ منصفانہ انتخابات پر لوگوں کا اعتماد بنا رہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ ہم نے دیکھا ہے اس چناؤ میں، خاص طور پر کہ جب بھی لوگ، رولنگ پارٹی کے بارے میں شکایت لے کر کمشن میں گئے تو اس پر کوئی کام نہیں ہوا اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اور یہ بات کوئی پہلی بار نہیں ہو رہی۔ پہلے بھی بات ہو چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے اندر کسی پارٹی، رولنگ پارٹی یا سرکار کی کوئی بالا دستی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سول سوسائٹی کی پہلے سے ’مانگ ‘رہی ہے۔ لیکن اس بار اسپیشلی جس طرح کے کمشن کے فیصلے رہے ہیں، اس نے اس ضرورت کو اور اجاگر کر دیا ہے‘۔
انجلی نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’تین ممبرز کا کمیشن ہے۔ ان میں سے ایک ممبر جب کہتے ہیں کہ یہ غلط ہو رہا ہے تو ان کے اختلاف کو نوٹ بھی نہیں کیا جاتا۔ ان سب چیزوں سے سمجھ میں آ رہا ہے کہ ’جو خطرہ ہمیں پہلے سے نظر آ رہا تھا وہ کیسے سامنے آتا جا رہا ہے‘۔
این۔ کے۔ سنگھ ، بھارت کے ایک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے طے شدہ انتخابی ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی اور پھر ان کے بارے میں شکایت کو الیکشن کمیشن نے نظر انداز کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک توقع تھی کہ کم سے کم الیکشن کمیشن ایک ایسا انسٹی ٹیوشن ہے، جو ان تمام چیزوں کا نو ٹس لے گا جو اس کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ اور اس کی سپریم کورٹ نے سرزنش بھی کی تھی کہ آپ ایکشن کیوں نہیں لے رہے۔ تو انہوں نے فوری طور پر یو پی کے چیف منسٹر پر کچھ گھنٹوں کے لیے پابندی عائد کر دی۔ اس کے بعد کسی اور کے ساتھ بھی یہی کیا۔
لیکن سنگھ صاحب کہتے ہیں کہ ’جب بات آتی ہے پرائم منسٹر کے کسی بیان کی، تو اس پر پابندی نہیں لگاتے۔ بالاکوٹ کے مسئلے کو لے کر ،انہوں نے( مودی نے) جو اپیل یوتھ سے کی تھی، وہ ضابطہ اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی تھی‘۔
این۔کے۔سنگھ نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہ، ’ اس وقت جب تقریباً 95 نشستوں پر ووٹنگ مکمل نہیں ہوئی تھی، اس وقت مودی صاحب ایک گپھا میں، سارے کے سارے میڈیا کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اور اس سے ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ متاثر ہوتا ہے، کیونکہ وہ مذہبی علامتیں تھی ۔اور ماڈل ’کوڈ آف کنڈکٹ ‘ کا تیسرا پیرا گراف صاف طور پر کہتا ہے کہ مذہبی مقامات سے اس طرح کی اپیل اگر کسی بھی صورت میں کی جاتی ہے تو وہ ایک خلاف ورزی ہے‘۔
این کے سنگھ نے کہا، ’مجھے لگتا ہے کہ اس دیش میں یہ دیکھنا پڑے گا ۔اور شاید پابندی اس بات پر لگانی پڑے گی کہ اگر کوئی بھی مندر جاتا ہے تو اس کی فوٹو نہیں چھپے گی۔ اس کے ویژولز نہیں دکھائے جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ سب چیزیں الیکشن کمیشن کو کرنی پڑیں گی‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، انڈیا کے الیکشن کمیشن نے اس طرح کی شکایات کے جواب میں کہا ہے کہ اسے جو بھی شکایات ملتی ہیں وہ ان کی غیر جانب داری سے چھان بین کر کے کاروائی کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ بھی الیکشن کمیشن کے کسی موجودہ یا سابق عہدہ دار سے رابطہ کرنے کی کو شش کر رہا ہے، تاکہ ان کے ردعمل سے اپنے سننے والوں کو آگاہ کر سکے۔
فیس بک فورم