رسائی کے لنکس

بھارت: ووٹ سے تبدیلی کے نعرے پر قبائلی خواتین کو بھروسا نہیں


بھارت کی قبائلی خواتین ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے نعرے پر یقین نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے یہی سنتی آئی ہیں کہ ان کا ووٹ بہت طاقتور ہے اور انتخابات کے ذریعے ملک میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ لیکن عملاً انہیں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جس سے یہ لگے کہ انتخابات سے معاشرے میں تبدیلی آتی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ وہ وعدے ہیں، جو بقول ان کے، انتخابات کا موسمی نعرہ ہیں۔ ان خواتین کو بمشکل ہی یاد ہے کہ کسی سیاست دان نے ان سے کیے گئے وعدے عشروں میں بھی کبھی پورے کئے ہوں۔

کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ اکثر سیاست دان انتخابات سے قبل ان کے لیے 'میٹھے میٹھے بولوں کی مالا' پروتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی انتخابات ختم ہوتے ہیں تو وہ اس طرح غائب ہو جاتے ہیں کہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔

اپریل کی 11 تاریخ سے شروع ہونے والے انتخابات کا آخری مرحلہ 19 مئی کو ہو گا۔ لیکن، خبر رساں ادارے اے پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قبائلی خواتین کو یہ توقع نہیں ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں خوشحالی آئے گی۔

ایک ستر سالہ قبائلی خاتون ناری یان وگنایہ کا کہنا ہے کہ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے کتنی بار مختلف امیدواروں کو اس امید پر ووٹ ڈالا کہ یہی صحیح امیدوار ہے اور اس کے جیتنے سے ہماری زندگی میں آسانیاں آ جائیں گی۔ ہمارا کوئی بڑا مطالبہ نہیں۔ ہمیں نہ تو کوئی بڑا اسپتال چاہئے اور نہ ہی بڑی بڑی عمارتیں۔ ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں بیت الخلا کی سہولت میسر آ جائے۔

بیشتر قبائلی خواتین کو الیکشن سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ایک سو سالہ خاتون موتی کا کہنا ہے کہ وہ زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالیں گی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے انہیں رقم دینے کی پیشکش کی ہے۔

نندنی نامی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ تو دیں گی، لیکن نوٹا کے خانے پر مہر لگائیں گی۔ ’نوٹا‘ یعنی ’نن آف دی ابوو‘۔ اس خانے میں مہر لگانے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ووٹر کسی بھی امیدوار کو اپنے ووٹ کا صحیح حقدار نہیں سمجھتا۔

ارمیلا دیوی نامی ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ اپنے سر سے اپنا فرض اتارنے کے لیے ڈالیں گی۔

ایک اور خاتون گڈی دیوی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے مرکز اور ایک میڈیکل سینٹر کے قیام کے لیے ووٹ ڈالیں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں یہ یقین بھی ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں ہونے پائے گا۔

ناگا قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو انسانی حقوق کے لیے عرصے سے کام کر رہی ہیں،کہتی ہیں کہ انتخابات ہماری زندگی سے جڑے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اپنے ووٹوں کے ذریعے ہم جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں وہ امن، انصاف اور جمہوریت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔

بھارت میں قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ وہ صدیوں سے اس ملک میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی اکثریت پہاڑی اور دور افتادہ علاقوں میں رہتی ہے۔ بھیٹر اور بکریاں ان کی آمدنی اور خوارک کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ وہ زیادہ تر بانس سے بنی جھونپٹریوں میں رہتے ہیں۔

دریائے برہم پتر کے ساتھ ساتھ ان کی وسیع اور گنجان آبادیاں ہیں۔ ان کی نسلیں تقریباً 8 ہزار قبیلوں میں منقسم ہیں۔ بھارت کے علاوہ میانمار اور چین بھی قبائلی صدیوں سے آباد ہیں۔

بھارتی معاشرے میں جہاں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، وہاں قبائلی خواتین کو اور بھی زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت میں قبائلی لفظ ہی پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

غربت اور پسماندگی ان کے اہم مسائل ہیں۔ معیشت کے پھیلاؤ، گھریلو منصوبوں اور صنعتی یونٹس کے توسیعی پراجیکٹس کی وجہ سے اکثر قبائل کو اپنی آبائی زمینیں چھوڑنی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے وہ حکومت سے ناراض رہتے ہیں۔

اپنی زمین سے پیار قبائلیوں کی گھٹی میں پڑا ہے۔ وہ ان جگہوں کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جہاں ان کے آباؤ اجداد پیدا ہوئے اور اسی خاک کا حصہ بن گئے۔ جہاں ان کا اپنا جنم ہوا اور جہاں ان کے روز و شب گزرتے ہیں۔ لیکن حکومتی عہدے دار انہیں وہاں سے بزور قوت بے دخل کر دیتے ہیں۔

بھارتی قبائلیوں کی مجموعی تعداد دس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں شرح خواندگی بہت کم اور غربت کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ووٹ ڈالنے کے باوجود انہیں توقع نہیں ہے کہ انتخابات ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائیں گے۔

XS
SM
MD
LG