رسائی کے لنکس

رہائی کے بعد محبوبہ مفتی کا تنازع کشمیر حل کرنے پر زور


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے چودہ ماہ کی نظربندی کے خاتمے کے فوراً بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

رہائی کے بعد اپنے ٹوئٹر پیغام میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام مقاصد کے حصول کے لیے مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار رہیں۔

اُنہوں نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت بحال کرنے اور گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارتی حکومت کے اقدامات پر ایک بار پھر تنقید کی۔ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ کسی کشمیری نے گزشتہ سال کے غیر قانونی اقدامات کو تسلیم نہیں کیا۔

محبوبہ مفتی نے بھارت اور کشمیر کی جیلوں میں قید دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

محبوبہ مفتی کو منگل کو رات گئے رہا کیا گیا تھا۔ اُنہیں گزشتہ برس کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد نظر بند کیا گیا تھا۔

سیاسی تجزیہ کار مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر محبوبہ مفتی کے ان ریمارکس کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہٴ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ محبوبہ مفتی کو بھارت نواز سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔ اُن کی طرف سے تنازع کشمیر کے حل کا مطالبہ سامنے آنا اہم ہے۔

اُن کے بقول بھارتی حکومت نے محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ جیسے رہنماؤں کے خلاف جو اقدامات کیے اس کے بعد اُن کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اب کھلے عام کشمیر کے مسئلے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

تاہم پروفیسر بابا کا یہ بھی کہنا تھا کہ "سب جانتے ہیں کہ 2015 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کی قیادت کی کشمیری عوام میں ساکھ بڑی حد تک متاثر ہوئی۔ ممکن ہے محبوبہ مفتی نے اس قسم کا بیان عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی غرض سے دیا ہو۔"

بھارتی حکومت نے گزشتہ برس پانچ اگست کو وادیٔ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے عوامی ردِ عمل کے خدشے کے پیشِ نظر مختلف سیاسی رہنماؤں سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا تھا جب کہ متعدد کو ان کی رہائش گاہوں پر ہی نظر بند کر دیا تھا۔

محبوبہ مفتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری واپس لیے جانے کے دوران گرفتار ہوئی تھیں اور وہ رہا ہونے والی آخری رہنما ہیں۔

ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ بھی حراست میں لیے جانے والے رہنماؤں میں شامل تھے۔ تاہم اُنہیں رواں سال کے شروع میں ہی رہا کر دیا گیا تھا۔

محبوبہ مفتی کی رہائی سے متعلق حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے مطلع کیا ہے جب کہ محبوبہ مفتی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں اُن تمام حامیوں کا شکریہ ادا کیا جو ان کی حمایت کرتے رہے تھے۔

یاد رہے کہ محبوبہ مفتی کی رہائی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اُن کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ میں جمعرات کو سماعت ہونا ہے۔

محبوبہ مفتی کی صاحبزادی نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت والدہ کی نظر بندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق محبوبہ مفتی کی رہائی کے حوالے سے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کیا جا رہا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک کسی کو بھی نظر بند کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال کہا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے کو باقی ملک سے قریب تر کرنے کے لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ضروری ہے۔

حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل وادی میں موبائل فونز، انٹرنیٹ اور لینڈ لائنز ڈاؤن کر کے مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا تھا۔

بعدازاں محبوبہ مفتی سمیت متعدد افراد کو بھی حراست میں لے لیا تھا تاکہ کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے ممکنہ مظاہروں کو روکا جا سکے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG