رسائی کے لنکس

کلبھوشن کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات پر بھارت میں ملا جلا رد عمل


پاکستان کے دفتر خارجہ میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات۔ 25 دسمبر 2017
پاکستان کے دفتر خارجہ میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات۔ 25 دسمبر 2017

سہیل انجم

پاکستان کی جیل میں بند مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اسلام آباد میں اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات پر بھارت میں ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ ملاقات مودی حکومت کی کامیاب سفارتی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے۔

سینیر کانگریس لیڈر ابھشیک منو سنگھوی نے ملاقات کی اجازت دینے کو پاکستان کا مثبت قدم قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

اس دوران یہاں کے نیوز چینلنز پر صبح سے ہی مباحثے جاری رہے۔ مباحثوں کے بعض شرکا نے بھی ابتدا میں اسے ایک مثبت قدم قرار دیا لیکن جب تازہ تصاوير سامنے آئیں اور یہ معلوم ہوا کہ کلبھوشن او ران کی والدہ اور اہلیہ کے درمیان شیشے کی ایک دیوار حائل تھی تو ان کی رائیں بدلنے لگیں۔ انہوں نے اسے پاکستان کا ایک تشہیری ایجنڈا قرار دے دیا۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور ایک سینیر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ملاقات پر عدم اطمینان کا ظاہر کیا اور کہا کہ اس دوران بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر تو موجود تھے لیکن انہوں نے کچھ سنا نہیں کہ کیا باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کا ان کو حق ہے اور بھارت کو قونصلر رسائی کا حق ہے۔

سینیر بی جے پی لیڈر اور رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے کہا کہ پاکستان نے جو کچھ کیا ہے وہ عالمی عدالت انصاف کو دکھانے کے لیے کیا ہے۔ سینیر وکیل اجول نکم نے بھی اسے ایک دکھاوا قرار دیا۔ جبکہ ایک دوسرے سینیر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے امید ظاہر کی کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہونے چاہئیں۔

بعض اخباروں نے اسے باضابطہ ملاقات کے بجائے ویڈیو کانفرنسنگ قرار دیا۔

اس دوران بھارتی نیوز چینلوں پر پاکستانی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی رائیں بھی دکھائی جاتی رہیں۔ بیشتر پاکستانی تجزیہ کاروں نے ملاقات کی اجازت دینے کو ایک مثبت پہل بتایا اور کہا کہ کسی قیدی سے ملاقات کے جو مسلمہ ضابطے ہیں ان کی پابندی کی گئی اور انہی کے تحت ملاقات کرائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کلبھوشن پر پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسي کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی ہے۔ لہٰذا ان سے ایسے ہی ملاقات ہو سکتی تھی نہ کہ آمنے سامنے۔

XS
SM
MD
LG