رسائی کے لنکس

بھارت میں سی اے اے کے نفاذ کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • مبصرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ سی اے اے کے نفاذ سے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جائے گا۔
  • حکمران بی جے پی کے مطابق یہ قانون کسی بھی شہری کی، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو، شہریت نہیں چھینے گا۔
  • بعض تجزیہ کار سوال اٹھا رہے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل اس کا نفاذ کیوں کیا گیا ہے؟

بھارت میں مسلم تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکن، اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اور قانونی ماہرین کی جانب سے شہریت کے ترمیمی قانون ’سی اے اے‘ کے نفاذ کے حکومت کے اعلان پر تنقید اور مخالفت کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں کسی کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینا آئین کے خلاف ہے۔

حکومت کے اس فیصلے کو ریاست کیرالہ کی ایک سیاسی جماعت ’انڈین یونین مسلم لیگ‘ نے سپریم کورٹ میں منگل کو چیلنج کر دیا ہے۔

اس جماعت کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے لہٰذا اس کا اطلاق غیر آئینی ہے۔

حکومتی فیصلے کے خلاف ملک کے بعض علاقوں میں احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند، جمعیت علماء ہند، مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند، امارت شرعیہ، آل انڈیا ملی کونسل اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کے سی اے اے کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے اسے آئین اور مسلمانوں کے خلاف قرار دیا۔

مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 11 مارچ کی شب اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس قانون کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی غیر مسلم اقلیتوں کو جو شہریت حاصل کرنا چاہیں، پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انہیں اپنا، اپنے والدین کا یا ان کے والدین کا کوئی کاغذ پیش کرنا ہو گا جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ مذکورہ ملک کے شہری ہیں تو انہیں بھارت کی شہریت مل جائے گی۔

مسلمانوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ مذکورہ تینوں ملکوں کی اقلیتوں کو شہریت دینے کے نام پر بھارتی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو شہریت اور ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز شمال مشرقی ریاست آسام سے ہوا۔ آسام میں بی جے پی کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے مسلمان در اندازی کر رہے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

ان کے بقول جب حکومت نے وہاں سے مبینہ غیر قانونی شہریوں کو نکالنے کے لیے ’نیشنل رجسٹر سٹیزن‘ (این آر سی) نافذ کیا تو معلوم ہوا کہ 18 لاکھ افراد شہریت سے محروم ہو گئے ہیں۔ لیکن ان میں 12 لاکھ ہندو تھے اور صرف چھ لاکھ مسلمان تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آسام کی اس صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومت نے اس کی زد میں آنے والے ہندوؤں کو بچانے کے لیے شہریت کے قانون میں ترمیم کی تاکہ اس کے نام پر ان ہندوؤں کو شہریت دی جائے جو این آر سی سے باہر ہو گئے ہیں۔

انہوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اب جب کہ حکومت نے اس کا نفاذ کر دیا ہے تو لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جائے گا۔ ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جائیں گے اور ان کو حکومت کی اسکیموں سے کوئی فائدہ اٹھانے نہیں دیا جائے گا۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ سی اے اے سے مسلمانوں کو اسی وقت نقصان پہنچے گا جب این آر سی کو بھی اس سے جوڑا جائے۔ لیکن ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ ابھی سی اے اے نافذ ہوا ہے۔ اس کے بعد پورے ملک میں این آر سی نافذ کر دیا جائے گا اور تب بڑی تعداد میں مسلمان سڑکوں پر آئیں گے۔

ان کے مطابق ہندو احیا پسند جماعت ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) اور ہندو توا نواز طبقات کا پرانا ایجنڈا ہے کہ بھارت کو ہندو ملک اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کی حالت روہنگیا مہاجرین کی طرح ہو جائے گی اور انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔

یاد رہے کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس قانون کا مقصد کسی کی شہریت ختم کرنا نہیں ہے بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے ظلم و ستم کے شکار غیر مسلموں کو شہریت دینا ہے۔ حکومت مسلمانوں کے اندیشے کو خارج کرتی رہی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ یہ قانون اس ملک کے کسی بھی شہری کی، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو، شہریت نہیں چھینے گا۔ بلکہ پڑوسی ملکوں کی چھ اقلیتوں کو اس سے شہریت مل سکے گی۔ بھارت پہلے بھی پناہ گزینوں کو پناہ دیتا رہا ہے۔

ایسے وقت میں جب کہ بھارت میں پارلیمانی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان اور ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے والا ہے۔ سی اے اے کے نفاذ کو انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کو بنے چار سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ لیکن حکومت نے ابھی تک اس کو نافذ نہیں کیا تھا۔ اب اس کے نفاذ کا مقصد اس سے انتخابی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

متعدد مبصرین بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس کا نفاذ اس وقت کیوں کیا گیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار ہیمنت اَترے کا کہنا ہے کہ اس سے قبل حکومت نے اس قانون کے ضابطے وضع کرنے کے لیے پارلیمان سے نو مرتبہ وقت مانگا تھا۔ اب جب کہ الیکشن سر پر ہے تو فوری طور پر اس کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق حکومت سمجھتی تھی کہ رام مندر کے افتتاح سے عوام میں ایک جوش پیدا ہو جائے گا۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لہٰذا سی اے اے نافذ کر دیا گیا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور دیگر مبصرین بھی کا خیال ہے کہ اس وقت اس کے نفاذ کا مقصد انتخابی فائدہ اٹھانا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حیرت ہے کہ حکومت کو اس سے پہلے اسے نافذ کرنے کا موقع نہیں ملا۔

ان کے مطابق اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر ابھی تک سماعت شروع نہیں ہوئی ہے۔ چوں کہ عدالت نے اس پر حکمِ امتناع جاری نہیں کیا اس لیے حکومت نے اسے نافذ کر دیا ہے۔

دیگر قانونی ماہرین بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذہب، ذات برادری، رنگ، نسل اور علاقے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جا سکتا اور کسی کو مساوی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسعد علوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب 2019 میں یہ قانون بنا تھا تو اس کو سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 14 کی بنیاد پر ہی چیلنج کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ میں این آر سی کی دفعہ چھ اے کو بھی، جو کہ آسام میں غیر ملکیوں کو شہریت دینے سے متعلق ہے، چیلنج کیا گیا ہے جو کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ کے سامنے ہے۔ اس کے فیصلے اور سی اے اے کو چیلنج کیے جانے والی درخواستوں پر ہونے والے فیصلے کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے ایک اور سینئر وکیل ایم آر شمشاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی اے اے کا تعلق این آر سی سے بھی ہے اور جب این آر سی پر عمل درآمد ہو گا تو متعدد کاغذات مانگے جائیں گے۔ ان کی جانچ نچلی سطح کا ملازم کرے گا۔ اس کو یہ اختیار ہوگا کہ اس کے قلم سے کسی کی شہریت چلی جائے گی۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ میں صرف سی اے اے کا معاملہ ہی التوا میں نہیں ہے بلکہ این آر سی اور ’نیشنل پیپلز رجسٹر‘ (این پی آر) کا معاملہ بھی زیرِ التوا ہے۔ لہٰذا جب شہریت سے متعلق اتنے معاملات عدالت میں ہیں تو اس پر کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔

یاد رہے کہ 2019 میں سی اے اے کو سب سے پہلے ’انڈین یونین مسلم لیگ‘ نے عدالت میں چیلنج کیا تھا اور اس کے بعد لگ بھگ 200 درخواستیں اس کے خلاف دائر کی گئیں۔

چیلنج کرنے والوں میں سیاست دان، قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ لیکن تاحال ان پر سماعت شروع نہیں ہوئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG