رسائی کے لنکس

بھارت میں اقلیتوں کی صورتِ حال: 'امریکی رپورٹ درست، لیکن کوئی اثر نہیں ہوگا'


امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے ایک بار پھر اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بھارت نے امریکی رپورٹ پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ ناقص معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اسے مسترد کرتے ہیں۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے 2021 سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ دیکھی ہے اور سینئر امریکی عہدے داروں کے غلط معلومات فراہم کرنے والے تبصروں کو نوٹ کیا ہے۔

ان کے بقول بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں ووٹ بینک کی سیاست افسوس ناک ہے۔ رپورٹ میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ جانبدارانہ ہیں۔ ہم یہ اپیل کریں گے کہ حالات کا درست تجزیہ کیا جائے اور جانبدارانہ خیالات سے احتراز کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت ایک تکثیری معاشرے کی حیثیت سے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کو اہمیت دیتا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ تبادلۂ خیال میں نسل اور برادری سے متاثر حملوں، نفرت انگیز جرائم اور دیگر تشویش ناک امور کو مستقل طور پر اجاگر کیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی وزیرِخارجہ اینٹنی بلنکن کی جانب سے جمعرات کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2021 میں گائے کے مبینہ محافظوں کی جانب سے گائے کے ذبح یا بیف رکھنے اور فروخت کرنے کے الزام میں اقلیتوں پر حملے ہوتے رہے۔

اینٹنی بلنکن کے مطابق بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، وہاں ہم نے اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا ہے۔

رپورٹ میں تبدیلئ مذہب کے خلاف قوانین وضع کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 28 میں سے10 ریاستوں میں تبدیلئ مذہب پر پابندی کے قوانین موجود ہیں جب کہ چار ریاستوں میں شادی کے لیے مبینہ طور پر جبری تبدیلئ مذہب پر جرمانے کے قوانین ہیں۔حالاں کہ بعض ہائی کورٹس نے ان قوانین کے تحت عائد الزامات کو خارج کردیا ہے۔

رپورٹ میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی دکانوں، مکانوں اور عبادت گاہوں پر ہندو قوم پرست گروہوں کی جانب سے ہونے والے مبینہ حملوں پر اظہار تشویش کیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں گزشتہ سال دسمبر میں ریاست اتراکھنڈ کے ہریدوار میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقریروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ایک ہندو قوم پرست یتی نرسنگھا نند نے ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی تھی۔

عالمی مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کے سفیر رشاد حسین کہتے ہیں کہ بھارت میں بعض حکام اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والےمبینہ حملوں کو یا تو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر ان کی حمایت کرتے ہیں۔

'حکومت امریکہ کو دیگر ذرائع سے خوش رکھنا جانتی ہے'

نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جو رپورٹ جاری ہوئی ہے وہ بالکل درست ہے۔ پہلے بھی ان کی جانب سے اس طرح کی رپورٹس جاری ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان رپورٹس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

سینئر تجزیہ کار جے شنکر گپتا کہتے ہیں کہ بھار ت میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے تو مسلسل ہو رہے ہیں اور مختلف ممالک ان پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن یہاں کی حکومت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اس وقت جو لوگ حکمراں ہیں وہ ایمرجنسی کے زمانے میں پوری دنیا میں گھوم کر یہ بتاتے تھے کہ بھارت میں آمریت قائم ہو گئی ہیں۔اس وقت ان لوگوں کو انسانی حقوق کی باتیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے انسانی حقوق کے ادارے بھی بہت پسند تھے۔ لیکن اب ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور ملک میں ایمرجنسی جیسا ماحول ہے۔

تجزیہ کار حسن کمال کہتے ہیں کہ ایسی رپورٹس کا بھارت پر اس لیے کوئی اثرنہیں پڑتا کہ یہاں کی موجودہ حکومت جانتی ہے کہ وہ امریکہ کو خوش رکھ سکتی ہے اور اسی لیے وہ ان رپورٹس کی پروا بھی نہیں کرتی اور انہیں مسترد کرتی رہتی ہے۔

ان کے خیال میں بھار ت کو یہ معلوم ہے کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایسی رپورٹس سے نہ تو یہاں کی حکومت پر کوئی اثر پڑنے والا ہے، نہ ہی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نہ ہی راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہاں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے اس سے پوری دنیا میں بھار ت کا تشخص متاثر ہو رہا ہے۔

ادھر امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ہندو اور سکھ شہریوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نومبر 2016 میں، جب ایک ہزار اور پانچ سو کے کرنسی نوٹ غیر قانونی قرار دیے گئے تھے تو اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

بعد ازاں بھارت نے اگست 2019 میں کشمیر کو نیم خود مختاری دینے والی دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے وقت بھی دعویٰ کیا تھا کہ اب دہشت گردی کا صفایا ہو جائے گا۔جب کہ اب بھی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

جے شنکر گپتا کہتے ہیں کہ دہشت گردی تو اب بھی جاری ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔

بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی یا اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے خلاف جاری ہونے والی امریکی رپورٹس کی کیا کوئی اہمیت بھی ہے۔

'انسانی حقوق سے زیادہ تجارتی مفادات کی اہمیت ہے'

اس بارے میں جے شنکر گپتا کا کہنا ہے کہ امریکہ رپورٹ جاری کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے، وہ کوئی پابندی تو لگا نہیں سکتا۔ ان کے خیال میں اب انسانی حقوق کا معاملہ بہت اہم نہیں رہابلکہ تجارتی مفادات کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔

حسن کمال سمجھتے ہیں کہ ہر ملک اپنے اقتصادی مفادات کا خیال رکھتا ہے۔بھارت سے امریکہ کے کوئی زیادہ اقتصادی مفادات وابستہ نہیں ہیں، لیکن اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔

بھارت کے خلاف کسی کارروائی سے متعلق حسن کمال کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ وہ بھارت کے خلاف سخت قدم بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس نے بعض ملکوں کے خلاف کارروائی کی بھی ہے۔ لیکن ان کے بقول امریکہ جن ملکوں کو اپنا دوست سمجھتا ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ بھارت کے خلاف فی الحال کوئی کارر وائی نہیں کرے گا۔ وزارت خارجہ نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ بتانے کے لیے ہے کہ ہم اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔

جے شنکر گپتا کہتے ہیں کہ امریکہ کو بھارت کو خبردار کرنا چاہیے کہ اس قسم کے واقعات روکے جائیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لیکن جہاں تک ایسی رپورٹس کو بھارت کی جانب سے مسترد کیے جانے کی بات ہے تو کوئی بھی ملک اپنے یہاں اس قسم کے الزامات کو قبول نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہو یا کوئی دوسرا ملک، وہ صرف اس وجہ سے بھارت پر حملہ نہیں کرسکتا کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے خیال میں اس قسم کی رپورٹس رسمی رپورٹس بن کر رہ گئی ہیں۔ حسن کمال بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دونوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی رپورٹس سے دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔

جے شنکر کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے خلاف ایسی رپورٹ جاری ہوتی ہے اور وہ ملک جمہوری اقدار میں یقین رکھتا ہے تو اسے ندامت ہوگی اور وہ شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن ان کے بقول بھارت کی موجودہ حکومت کو کوئی ندامت نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG