رسائی کے لنکس

بھارت میں روح افزا کی قلت، افطار پھیکی پھیکی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

موسم گرما بالخصوص رمضان المبارک کا پسندیدہ مشروب روح افزا اگر اچانک غائب ہو جائے تو روزہ داروں پر کیا گزرے گی؟ اس کا اندازہ آج کل دار الحکومت دہلی اور شمالی ہند کے مسلمانوں کو ہو رہا ہے۔

عام طور پر شمالی ہند کے مسلمان کھجور، پکوڑوں اور مختلف قسم کے پھلوں کے ساتھ ساتھ شربت روح افزا سے افطار کرتے ہیں۔ لیکن امسال روح افزا ان کے دسترخوانوں سے غائب ہے جس کی وجہ سے افطار پھیکا پھیکا محسوس ہو رہا ہے۔

شربت روح افزا ہمدرد لیباریٹریز غازی آباد یو پی میں بنایا جاتا تھا مگر گزشتہ سال اکتوبر نومبر سے ہی اس کی پروڈکشن بند ہو گئی تھی۔ اگر ہمدرد کے مالکان کی باتوں پر یقین کریں تو اس کی اصل وجہ جڑی بوٹیوں کی عدم دستیابی ہے۔

لیکن باخبر ذرائع اس کی کچھ اور وجہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی اصل وجہ خاندانی لڑائی ہے۔

ہمدرد کے ایک ڈائرکٹر مفتی شوکت کا کہنا ہے کہ اس کی پروڈکشن دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور جلد ہی یہ بازاروں میں دستیاب ہو جائے گا۔

حکیم حافظ عبدالمجید نے ہمدرد کا ادارہ قائم کیا تھا۔ ان کے فرزند حکیم عبدالحکیم ہمدرد انڈیا کے مالک تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے معید احمد چیف متولی یا سی ای او ہوئے۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹے عبدالمجید چیف متولی بن گئے۔

جب کہ ان کے چھوٹے بھائی حماد احمد کا دعویٰ ہے کہ قانونی طور پر وہ چیف متولی بننے کے حقدار ہیں۔ لہٰذا انھوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔

مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جہاں کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی جیسے اعلیٰ پائے کے وکلا دونوں جانب سے پیروی کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق بیس بیس وکلا کی فوج دونوں جانب سے کھڑی ہوتی تھی۔

بالآخر عدالت نے حماد احمد کو چیف متولی ماننے سے انکار کر دیا اور عبدالحمید کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے بعد سے روح افزا کا پروڈکشن شروع ہو گئی ہے۔

حکیم عبد الحکیم نے ہمدرد انڈیا کو قانون کی رو سے وقف ملکیت کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرایا تھا۔ اس طرح وہ ”ہمدردر وقف“ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے تحت ہمدرد نیشنل فاونڈیشن قائم ہوئی جس نے ہمدرد یونیورسٹی اور مجیدیہ اسپتال اور دیگر ادارے قائم کیے۔

ذرائع کے مطابق حکیم عبدالحکیم کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نے وقف ختم کر دیا اور اسے اپنی ذاتی ملکیت قرار دے دیا۔ اس کے بعد سے ہی اس پر قبضہ کرنے کی لڑائی شروع ہو گئی۔

اس قانونی جنگ کی وجہ سے جہاں متعدد ادویات کی پروڈکشن بند ہوئی وہیں روح افزا کا بننا بھی بند ہو گیا۔

معاملے سے واقف ذرائع کے خیال میں نہ تو جڑی بوٹیوں کی کبھی کوئی کمی رہی اور نہ ہی شربت بنانے والے کارکنوں کی۔ البتہ قانونی جنگ نے اس کی پیداوار روک دی تھی۔ متعدد ادویات اب بھی تیار نہیں ہو رہی ہیں۔

اس لڑائی نے کارکنوں پر بھی اثر ڈالا اور ان کی تنخواہیں رک گئیں۔ لیکن اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تین اپریل کو فیصلہ سنا دیا ہے تو روح افزا کی پروڈکشن بھی شروع ہو گئی ہے اور کارکنوں کو بقایا تنخواہیں بھی ملنے لگی ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے دباؤ کی وجہ سے روح افزا کا بننا شروع ہوا ہے۔ ورنہ مالکان کی جانب سے اس کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا۔

روح افزا کی عدم دستیابی کے خلاف ٹویٹر پر بھی صارفین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ کئی یوزرز نے لکھا ہے کہ انھیں آن لائن بھی روح افزا دستیاب نہیں ہے۔

ہمدرد کمپنی میں بطور ٹھیکیدر کام کرنے والے ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بہت سی ادویات کی پروڈکشن اب بھی بند ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جڑی بوٹیوں کی عدم دستیابی محض ایک بہانہ ہے۔

اس کے خیال میں یہ ہمدرد پر قبضے کی لڑائی ہے جس میں لوگ شربت روح افزا سے محروم ہو گئے۔

بہر حال اب بازار میں رو افزا کہیں کہیں دستاب ہونے لگا ہے۔

ایک صارف نے بتایا کہ اس نے آج ہی 12 بوتلوں کا کریٹ 1650 روپے میں خریدا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب ہمدرد کمپنی پاکستان کے سی ای او نے واہگہ کے راستے روح افزا بھارت سپلائی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

چیف سیلز اینڈ مارکیٹنگ افسر منصور علی کا دعویٰ ہے کہ اب روح افزا ہر جگہ ملنے لگا ہے۔ لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں اور ہم اس کی طلب پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ بقول ان کے ہم جلد ہی حالات پر قابو پا لیں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG