رسائی کے لنکس

القاعدہ کی دھمکیوں سے نہیں گھبرائیں گے: بھارت


فوج کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے ذاکر موسی کو تدفین کے لیے لیجایا جا رہا ہے۔
فوج کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے ذاکر موسی کو تدفین کے لیے لیجایا جا رہا ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سربراہ کی دھمکیوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

بھارت نے کہا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے حالیہ بیان کو اہمیت نہیں دیتا جس میں انھوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی تھی۔

نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوراں کہا کہ "ایسی دھمکیاں ہم سنتے رہتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس طرح کی دھمکی دی گئی ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی سیکورٹی فورسز میں یہ قابلیت ہے کہ وہ ہر طرح کے خطرات کا سامنا کر سکتی ہیں، فوج ہماری جان و مال کے تحفظ کے علاوہ علاقائی سالمیت کا بھی دفاع کرنا جانتی ہے۔

بھارتی دفتر خارجہ کے مطابق القاعدہ کو اقوام متحدہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اس کے رہنما بھی اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ لہذٰا ہم ان دھمکیوں سے گھبرانے والے نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی دھیان دیتے ہیں۔

القاعدہ رہنما نے کہا کیا تھا؟

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کے لیے لڑائی بھی جہاد ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مجاہدین کو بھارتی فوج اور حکومت پر لگاتار ضربیں لگانی چاہیئں، تاکہ بھارت کی معیشت تباہ ہو اور اسے مسلسل نقصان پہنچے۔

القاعدہ کی موجودگی کے بارے میں متضاد بیانات

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے حکام شورش زدہ ریاست میں القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ یا داعش جیسی اقوامِ متحدہ کی طرف سے قرار دی گئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کے بارے میں متضاد بیانات دیتے آئے ہیں۔

بھارتی حکام کا یہ اصرار رہا ہے کہ القاعدہ یا داعش کا بھارتی کشمیر میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، اکا دکا واقعات میں ان تنظیموں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد حکام نے کہا تھا کہ یہ محدود کارروائیاں ہیں جنھیں نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

بھارت میں القاعدہ کی شاخ کے قیام کا اعلان

القاعدہ نے سنہ 2017 میں بھارت میں 'انصار غزوۃ الہند' کے نام سے ایک شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کا سربراہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے الگ ہونے والے کمانڈر ذاکر موسی کو مقرر کیا گیا تھا۔

ذاکر موسی کو بھارتی فوج نے رواں سال 23 مئی کو ریاست کے جنوبی ضلع پلواما کے ترال علاقے میں ہونے والی ایک جھڑپ کے دوراں ہلاک کردیا تھا۔

ریاست کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے اس موقع پر کہا تھا کہ اس ہلاکت کے ساتھ ہی 'انصار غزوۃ الہند' کی نہ صرف بنیادیں ہل گئی ہیں بلکہ اس نظریے کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔

دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ "ذاکر موسی نے ریاست میں خلافت قائم کرنے کا جو خواب دیکھا تھا وہ اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی دفن ہو چکا ہے۔"

ذاکر موسی کی ہلاکت کے صرف چند ہفتے بعد ہی القاعدہ نے ایک اور کشمیری عسکری کمانڈر حمید للہاری عرف ہارون عباس کو انصار غزوۃ الہند کا نیا سربراہ اور غازی ابراہیم خالد کو ان کا نائب مقرر کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ سات ہفتے کے دوران کم سے کم تین ایسے مزید عسکریت پسندوں کو سیکورٹی فورسز نے ہلاک کیا ہے۔ ان کے بارے میں خود حکام کا کہنا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلق رکھتے تھے یا اس کے نظریے سے متاثر تھے۔

ذاکر موسی جو بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
ذاکر موسی جو بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

داعش کا دعویٰ

گزشتہ ماہ ریاست کے جنوبی ضلع شوپیاں میں ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران سیکورٹی فورسز کی طرف سے ایک مقامی عسکریت پسند اشفاق احمد صوفی عرف عبد اللہ بھائی کو ہلاک کیا گیا تھا۔

عبداللہ کی ہلاکت کے بعد دولت اسلامیہ کی نیوز ایجنسی 'اعماق' نے بھارت میں نیا صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم بھارتی حکام نے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے اسے محض پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔

بھارتی حکام کی تردید کے باوجود بعض سیاسی جماعتیں اس خدشے کا اظہار کر چکی ہیں کہ بھارتی کشمیر میں دولت اسلامیہ اور القاعدہ اپنی طرز کی مسلح تحریک چلانا چاہتی ہیں۔ لہذٰا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم حریت پسند تنظیمیں القاعدہ اور دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

حریت پسند رہنما میرواعظ عمر فاروق نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "کشمیر میں جاری جدوجہد کا ایک الگ تاریخی پس منظر ہے. اسے ایک خاص سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور آج یہ بات دہرار ہے ہیں کہ ہماری اس جائز تحریکِ مزاحمت کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG