رسائی کے لنکس

چین اور پاکستان کا مقابلہ کیسے ہو؟ بھارت روسی ہتھیاروں کے بارے میں بے یقینی کا شکار


نئی دہلی میں ملاقات سے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مصافحہ کرتے ہوئے۔ 6 دسمبر، 2021ء (فائل فوٹو)
نئی دہلی میں ملاقات سے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مصافحہ کرتے ہوئے۔ 6 دسمبر، 2021ء (فائل فوٹو)

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے لگنے والی پابندیوں کے باعث بھارت روسی ہتھیاروں کی رسد سے متعلق بے یقینی کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی کوششیں چین کے ساتھ مستقبل میں سرحدی تنازع کے دوبارہ ابھرنے کی صورت میں مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا 60 فیصد دفاعی ساز و سامان روس سے درآمد کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی اس وقت مشکلات کا شکار ہے جس کا چین کے ساتھ دو برس سے لداخ میں سرحدی تنازع چل رہا ہے جہاں ہزاروں فوجی آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ 2020 میں سرحد پر ایک تنازع کے دوران بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

بھارت کے سابقہ سیکریٹری خارجہ شیام سارن نے حال ہی میں ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہوگا اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے لیے روس کا خطرہ بہت بڑا ہے اور حکمت عملی کے طور پر وہ چین کے قریب آ سکتا ہے۔ بقول ان کے ’’اسے اگر کھلے لفظوں میں کہیں تو ایشیا میں چین کی اجارہ داری کو قبول کر کے یورپ میں اپنی اجارہ داری بچالے۔‘‘

کیا چین یوکرین کے تنازع سے سبق حاصل کر کےبھی لداخ اور تائیوان میں جارحیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟

بھارت کے جندل سکول آف انٹرنیشنل افئیرز کے فیلو اور ریٹائرڈ سفارت کار جتندر ناتھ مشرا نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ ایسا ہی کرے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں کہا ہے کہ ان کے اقوام متحدہ میں روس کی جارحیت کے خلاف قرارداد میں ووٹ نہ ڈالنے پر بھارت کے ساتھ حل پذیر اختلافات ہیں۔ مودی نے روس کے خلاف ووٹ ڈالنے یا پوٹن کو یوکرین کے معاملےپر تنقید کا نشانہ بنانے سے اب تک گریز کیا ہے۔

نوے کی دہائی کے اوائل تک بھارتی بری فوج کے 70 فیصد، ائیر فورس کے 80 فیصد اور نیوی کے 85 ہتھیار سوویت روس سے درآمدکیے جاتے تھے۔ بھارت اب اپنی دفاعی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کو کم کر رہا ہے اور امریکہ، اسرائیل، فرانس اور اٹلی سے بھی دفاعی ساز و سامان منگوا رہا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2016 سے 2020 کے دوران بھارت نے روس سے تقریباً 49 فیصد دفاعی ساز و سامان منگوایا جب کہ فرانس سے 18 فیصد اور اسرائیل سے 13 فیصد سامان منگوایا گیا۔

بھارت نہ صرف دفاعی ساز و سامان روس سے منگواتا ہے بلکہ اس کے اپ گریڈ کے لیے بھی روس پر انحصار کرتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے اے پی کو بتایا کہ بھارت جہاں دفاعی سیکٹر میں خود انحصاری کی کوشش کر رہا ہےوہیں اس کی ماڈرنائزیشن کے لیے اس کا روس پر انحصار بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس وہ واحد ملک ہے جس نے بھارت کو جوہری آبدوز لیز پر دی، کیا کوئی اور ملک بھارت کو جوہری آبدوز کرائے پر دے گا؟

سوشانت سنگھ نے، جو سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں سینئیر فیلو ہیں، اے پی کو بتایا کہ بھارت کی نیوی کے پاس ایک ایئرکرافٹ کیریئر بحری جہاز ہے جو روسی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے اکثر فائٹر جیٹ روسی ہیں اور اس کے نوے فیصد ٹینک بھی روسی ہیں۔

جتندر ناتھ مشرا نے کہا کہ امریکہ نے ابھی تک ٹیکنالوجی کے تبادلے کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی۔

ریٹائرنیوی افسر ڈ ایس سی ایس بانگرا نے اے پی کو بتایا کہ اگرچہ بھارت کوشش کر رہا ہے کہ وہ دفاعی ساز و سامان امریکہ، اسرائیل، فرانس اور دوسرے ممالک سے درآمد کرے، لیکن اسے روس کے ساز و سامان پر انحصار سے نکلنے میں بھی بیس برس لگ جائیں گے۔

(خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG