بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایشیا کے دوسرے اور بھارت کے پہلے سب سے لمبے ڈبل ڈیکر ریل روڈ بریج کا افتتاح کیا ہے۔ اس پل کی تعمیر سے چین کے ساتھ ملحق بھارتی ریاست ہماچل پردیش تک زمینی راستہ قائم ہو گیا ہے۔
اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے اس پل کو بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
یہ پُل شمال مشرقی ریاست آسام میں دریائے برہم پُترا پر تعمیر کیا گیا ہے اور آسام کے ڈبروگڑھ اور اروناچل پردیش کی سرحد پر واقع دھیما جی ضلع کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔
اس کو اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ دونوں اطراف جنگی سامان اور ٹینکوں کی آمد و رفت میں آسانی ہوگی اور اس پر ہنگامی حالات میں جنگی طیارے بھی اتر سکیں گے۔
پانچ کلومیٹر لمبے اس پل کا سنگ بنیاد 1997ء میں رکھا گیا تھا۔
دفاعی ذرائع کے مطابق مشرقی خطے میں دفاعی ساز و سامان کی تیزی اور آسانی کے ساتھ آمد و رفت کی وجہ سے قومی سلامتی کو تقویت حاصل ہوگی۔ پل پر فضائیہ کے لیے تین لینڈنگ پٹیاں مخصوص ہوں گی۔
اس کے علاوہ فوجی جوانوں کو جنوبی ساحل سے شمالی ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو گی اور جنوب سے شمال تک کا سفر بھی کم ہو گیا ہے۔
شمال مشرق ریلوے کے سربراہ پی آر او برنوجوتی شرما کے مطابق اروناچل پردیش میں بھارت اور چین کے درمیان چار ہزار کلومیٹر طویل سرحد کے 75 فیصد تک آسانی سے رسائی ہو جائے گی۔
لیکن ایک دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے سیاحت کو تو فروغ حاصل ہو سکتا ہے لیکن فوجی نقطہ نظر سے یہ خطرناک ہے۔
بقول ان کے جنگ کی صورت میں چینی افواج اس پر بم برسا کر اسے تباہ کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہماری افواج پھنس جائیں گی اور ان کا کھانا پانی، گولہ بارود اور ساز و سامان دوسری جانب رہ جائے گا۔ ان کے مطابق چین کے لیے یہ سب سے بڑا ہدف ہو سکتا ہے۔
اس پل کی وجہ سے آسام سے اروناچل پردیش کی مسافت چار گھنٹے کم ہو جائے گی۔
آبی سطح سے 32 میٹر اونچائی پر واقع اس پل پر نیچے ٹرینیں چلیں گی اور اوپر گاڑیاں۔ اس کی عمر 120 سال بتائی جا رہی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سات شدت کے زلزلے کا جھٹکہ بھی برداشت کر لے گا۔ اس کی تعمیر پر 5900 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔