رسائی کے لنکس

بھارتی فوجی افسروں کو پشتو، دری اور کشمیری زبانیں سکھانے کا پروگرام


بھارتی فوجی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بھارتی فوجی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

بھارت میں اب زیرِ تربیت فوجی افسران کو پشتو، دری اور کشمیری زبانیں بھی سکھائی جائیں گی۔ عہدیداروں کے مطابق، بھارت کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی نے اس تعلیمی سال سے زیرِ تربیت فوجیوں کے نصاب میں ان زبانوں کو بھی شامل کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان فوجی افسروں کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تعینات کیا جائے گا۔

محتاط اندازے کے مطابق، کشمیری بھارتی کنڑول میں ساٹھ لاکھ آبادی کی مادری زبان ہے جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیلم اور لیپا وادیوں کے کم و بیش پندرہ لاکھ لوگ بھی یہ زبان بولتے ہیں۔

عہدیداروں نے زیرِ تربیت فوجی افسروں کو یہ زبانیں سکھانے کی ضرورت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری اس ہمالیائی ریاست میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے جبکہ دری اور پشتودو ایسی زبانیں ہیں جو اُن کے بقول متنازعہ کشمیر کی حد بندی لائن پر تعینات بھارتی فوج کے حریفوں کی طرف سے بولی جانے والی اہم زبانیں ہیں۔

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے پونے علاقے میں واقع نیشنل ڈیفنس اکیڈمی بھارتی مسلح افواج کی ایک ایسی مشترکہ سروسز اکادمی ہے جہاں بّری، بحری اور فضائی افواج کے زیرِ تربیت افسروں کو مزید تربیت حاصل کرنے کے لئے اپنی اپنی سروس اکیڈمیوں میں بھیجے جانے سے پہلے اکٹھے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ دنیا کی پہلی اکیڈمی ہے جہاں مسلح افواج کے تینوں شعبوں سے وابستہ افسران تربیت حاصل کرتے ہیں۔

عہدیداروں نے بتایا کی کشمیری، پشتو اور دری زبانیں سکھانے کا آغاز اسی ماہ ہوا ہے اوراکیڈمی میں زیرِ تربیت فوجیوں کےلئےتین سالہ کورس کے آخری سال میں یہ زبانیں سیکھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

تجزیہ نگار اور سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر شیخ شوکت حسین نے بھارت حکام کے اس فیصلے پر کہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب ملک تقسیم ہوا تو اُن علاقوں سے جو پاکستان کا حصہ بن گئے ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آ گئے جو پشتو، دری اور دوسری زبانیں بولتے تھے۔ تقسیم کے بعد ان زبانوں کو آگے بڑھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا – یہاں تو اردو کی بھی بیخ کنی کی جانے لگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب حکومت ہندوستان کو لگا ہوگا کہ دفاعی مقاصد کے حصول اور افغانستان، پاکستان اور کشمیر میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے فوجیوں کو یہ زبان سکھانا ناگزیر ہے۔

بھارتی مسلح افواج کے تربیتی نصاب میں کشمیری کو باضابطہ طور پر شامل کئے جانے پر بعض حلقوں نے چند خدشات کا اظہار کیا ہے۔

کشمیری زبان کے ایک معروف شاعر، ظرافت نگار اور نقاد ظریف احمد ظریف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے۔ یہ ایک حل طلب معاملہ ہے۔ مجھے لگتا ہے زیرِ تربیت فوجی افسروں کو کشمیری زبان سکھانے کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما ہیں نہ کہ ایسا اس زبان کی عظمت کے اعتراف کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ ہمیں کئی طرح کے خدشات لاحق ہیں۔

تاہم ایک بھارتی عہدیدار نے بتایا کہ کشمیری ہماری زبان ہے اور بھارتی مسلح افواج میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جن کا تعلق کشمیر سے ہے۔

عہدیدار نے اس سلسلے میں سامنے آنے والے خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے سسمسٹروں میں غیر ملکی زبانیں سکھانا نصاب کا ایک لازمی جزو ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ چھ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ اکیڈمی میں جو غیر ملکی زبانیں سکھائی جاتی ہیں ان میں عربی، فرانسیسی، روسی اور چینی زبانیں بھی شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG