رسائی کے لنکس

سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعۃ الوداع کے اجتماع پر پابندی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام نے دارالحکومت سری نگر کی جامع مسجد کے منتظمین کو مطلع کیا ہے کہ اس تاریخی عبادت گاہ میں شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے موقعے پراجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انجمنِ اوقاف جامع مسجد کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بدھ کی شام کو افطار کے بعد جموں و کشمیر انتظامیہ اور پولیس کے افسران ایک تحصیلدار کے ساتھ جامع مسجد پہنچے اور اوقاف کے ذمہ داروں کو مطلع کیا کہ شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے موقعے پر لوگوں کو جامع مسجد میں جمع ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ جامع مسجد کو ایک مرتبہ پھر شبِ قدر اور جمعۃ الوداع جیسے مقدس مواقع پر عبادت کے لیے بند کرنا حکومت کا ایک جارحانہ اقدام ہے۔ اس سے تاریخی مسجد میں عبادت کے خواہش مند لاکھوں لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ان کے بقول، یہ کشمیری مسلمانوں کی مذہبی اور دینی رسوم اور فرائض کی انجام دہی میں سراسر بے جا مداخلت ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔

ادھر جمعرات کو رات گئے جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان جاری کردیا جس میں کہا گیاہے کہ اسے معتبر ذرائع سے یہ اطلاع ملی تھی کہ چند شرپسند عناصر شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے موقعوں پر جامع مسجد میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے بعد مسجد کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ پولیس نے مزید بتایا کہ لوگ جمعے کو تین بجے کے بعد جامع مسجد میں عبادات کا سلسلہ بحال کرسکتے ہیں ۔

کشمیری مذہبی جماعتوں اور لیڈروں کے اتحاد متحدہ مجلسِ علما اور اس کے سربراہ میرواعظ محمد عمر فاروق نے بھی حکومتی انتظامیہ کے فیصلے پر تعجب اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

جامع مسجد سرینگر۔ فائل فوٹو۔
جامع مسجد سرینگر۔ فائل فوٹو۔

انجمنِ اوقاف جامع مسجد کے عہدے داروں اور دیگر منتظمین نے صرف ایک دن پہلے ایک اجلاس میں شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کی تقریبات کے موقعے پر جامع مسجد میں آنے والے نمازیوں اور زائرین کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دی تھی۔

اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں توقع ظاہر کی گئی تھی کہ شب قدر ، جمعۃ الوداع اور عید الفطر کی آمد کے پیش نظر میرواعظ کی نظر بندی فوری اور غیر مشروط طور پر ختم کی جائے گی تاکہ وہ حسبِ روایت اس موقعے پر اپنی ذمے داریاں ادا کرسکیں۔

میرواعظ عمرفاروق اُن سینکڑوں کشمیری سیاستدانوں ، سول سوسائٹی کارکنوں، تاجر انجموں کے نمائندوں اور وکلا میں شامل ہیں جنہیں بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دینے کے بعد حراست میں لیا تھا یا گھروں میں نظر بند کردیا تھا۔ اگرچہ حکومت نے ان میں سے اکثر رہنماؤں کو رہا کردیا ہے لیکن میرواعظ عمرفاروق سرینگر کے نگین علاقے میں اپنی رہائش گاہ پر ابھی تک نظر بند ہیں۔

عوام میں مایوسی اور غم و غصہ

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام نے گزشتہ ماہ شبِ برات کے موقعے پر بھی سری نگر کی جامع مسجد میں اجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن وہاں کئی ماہ تک جمعے کی نماز ادا کرنے پر عائد پابندی کو حال ہی میں ختم کیا گیاتھا ۔ اب ایک بار پھر اجتماعی عبادت کے لیے جامع مسجد کو بند کرنے کے حکومتی فیصلے پر مقامی مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے جمعرات کو سری نگر کے پرانے شہرمیں، جہاں جامع مسجد واقع ہے، کئی لوگوں سے بات کی۔ جن کا کہنا تھا کہ موجودہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ انہیں بالخصوص مذہبی رسوم ادا کرنے سے روک رہی ہے۔

جامع مسجد سے ملحقہ علاقے میں برتنوں کا کاروبار کرنے والے ایک شہری عامر فیاض وانی نے کہا کہ شبِ قدر اور جمعۃ الوداع اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر جامع مسجد میں ایک میلہ سا لگتا تھا۔ وادیٔ کشمیر کے طول و عرض سے ہزاروں لوگ یہاں عبادت کرنے آتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعۃ الوداع کے موقعے پر اندازاً دو لاکھ لوگ یہاں نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن حکومت یہاں ان اجتماعات پر پابندی عائد کرکے نہ صرف انہیں اس خوشی اورروحانی سکون سے محروم کررہی ہے بلکہ سینکڑوں خوانچہ فروشوں اور دوسرے چھوٹے تاجروں کو بھی اس سے نقصان ہو گا۔

ایک اور شہری منظور احمد اندرابی نے جامع مسجد میں شبِ قدر اور جمعے کو عبادات کی ادئیگی پر پابندی پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے اس رویے کو افسوس ناک قرار دیا۔

’حالات معمول پر آنے کا دعویٰ کھوکھلا ہے‘

حکومت کے اس اقدام پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی بعض سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے بھی شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال حکومتی دعوؤں کے برعکس معمول سے کوسوں دور ہے۔ انہوں نے سری نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ حکومت بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد کو وادیٔ کشمیر میں حالات معمول پر آنے سے تعبیر کررہی ہے جو درست نہیں ہے۔

کشمیر: 'افطار کے بعد خواتین آنگن میں جمع ہو کر ترانے پڑھتی تھیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ اگر حالات واقعی معمول پر آگئے ہیں تو جامع مسجد میں شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے اجتماعات پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے؟ ان کے بقول حکومت اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہ بتارہی ہے کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس نے سری نگر میں جاری کردہ ایک بیان میں اس پابندی کو انتہائی افسوسناک اور مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے: "ماضی کی طرح لوگ جمعتہ الوداع کو ’’یوم قدس اور یوم کشمیر ‘‘کے طور پر منائیں گے تاکہ دیرینہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا جو ضیاع ہورہا ہے اسے روکنے اور مسائل کے پر امن حل کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا جاسکے۔"

’لوگ حکومت کی نیت پر شک نہ کریں‘

تاہم حکومتی اور پولیس عہدے داروں نے جامع مسجد میں شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے اجتماعات پر پابندی کے فیصلے کاماضی کے تجربات کی بنیاد پر دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام پیش بندی کے طور پر کیا گیا ہے۔

انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس ماہ کے شروع میں جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد ان کے بقول چند شر پسند عناصر نے بھارت دشمن اور اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے جس کے بعد سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے پولیس حکام کی سفارش پر 13 ملزموں کو سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کرنے کے احکامات صادر کیے تھے۔

پولیس عہدے دار ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جون 2017 میں شبِ قدر کے موقعے پر جامع مسجد کے باہر تعینات ایک پولیس افسر محمد ایوب پنڈت کو ہجوم نے مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔

عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں کرونا وبا کا پھیلاؤروکنے کے لیے بھی جامع مسجد میں بڑے اجتماعات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ پانچ اگست 2019 سےقبل جامع مسجد میں جمعے کے اجتماعات کے بعد علاقےمیں تشدد آمیز واقعات پیش آتے تھے اور مسجد سے نکلنے والے نوجوان پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کرتے تھے۔

ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے کہا کہ لوگوں کو حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے جان و مال کی حفاظت کرنا اور یہ دیکھنا کہ امن و قانون کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوحکومت کا فرض ہے۔ یہ اسی سلسلے میں حفظِ ما تقدم کے طور پر اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔

جموں و کشمیر پولیس نے رات گئے جاری ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ اسے معتبر ذرائع سے یہ اطلاع ملی تھی کہ چند شرپسند عناصر شبِ قدر اور جمعۃ الوداع کے موقعوں پر جامع مسجد میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے بعد مسجد کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ پولیس نے مزید بتایا کہ لوگ جمعے کو تین بجے کے بعد جامع مسجد میں عبادات کا سلسلہ بحال کرسکتے ہیں ۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG