رسائی کے لنکس

سری نگر: کشمیر میں ہڑتال، احتجاجی ریلیاں


لال چوک کا منظر (فائل)
لال چوک کا منظر (فائل)

ہفتے کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی آمد کو 71 سال مکمل ہوئے، جس موقع پر وادی کشمیر میں احتجاجی ہڑتال کی گئی۔

ہڑتال کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی جس نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ کشمیر پر "بھارت کے ناجائز قبضے پر مزاحمت کی علامت کے طور پر" اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر منائیں۔

ہڑتال کی وجہ سے مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں کاروبارِ زندگی مفلوج رہا جب کہ وادی کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔

بھارتی فوج کی سکھ رجمنٹ کے پہلے دستے کو 27 اکتوبر 1947ء کو ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اُتارا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ کا باضابطہ آغاز ہوا تھا جو بالآخر ریاست کی تقسیم کا باعث بنی تھی۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں اس کی فوجیں ریاست کے اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے نئی دہلی کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد خود مہاراجہ کی استدعا پر بھیجی گئی تھیں تاکہ پاکستان کی طرف سے آنے والے "قبائلی حملہ آوروں" کو ریاست کی سرحدوں سے باہر دھکیلا جاسکے۔

لیکن پاکستان اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا استدلال ہے کہ ہندو مہاراجہ کو مسلم اکثریتی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا کوئی اخلاقی حق تھا نہ اس کا کوئی قانونی جواز موجود تھا۔

ہفتے کو ریاست کے جموں اور لداخ خطوں میں جہاں بالترتیب ہندو اور بودھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، ہڑتال کی اپیل کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس کے برعکس ان دونوں علاقوں میں کئی ایسی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں بھارت کے ساتھ الحاق اور کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی آمد کی سالگرہ پر جشن منایا گیا۔

کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہفتے کو پاکستان میں بھی یومِ سیاہ منایا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت کے سامنے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بینر آویزاں ہے۔
کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہفتے کو پاکستان میں بھی یومِ سیاہ منایا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت کے سامنے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بینر آویزاں ہے۔

بھارتی فوج نے اس دن کی مناسبت سے ہفتے کو '71 واں انفنٹری ڈے' منایا۔ اس سلسلے میں ادھمپور میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے صدر دفتر میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی۔

سرینگر اور لداخ کے صدر مقام لیہہ میں بھی سرکاری سطح پر اسی طرح کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

دریں اثنا نئی دہلی میں 'انفنٹری ڈے' کی ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بھارت کی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت نے پاکستان پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالات کو مسلسل خراب کرنے اور تعمیر و ترقی کے کام میں رخنہ ڈالنے کا الزام لگایا۔

جنرل راوت کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر کو جنگ کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس لیے اب تخریبی کارروائیوں پر اتر آیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت اتنا طاقتور اور مضبوط ہے کہ وہ پاکستان کے "شیطانی عزائم" کو ناکام بنانے اور مختلف جوابی کارروائیوں کا پوری طرح اہل ہے۔

جنرل راوت نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران کم از کم دو مرتبہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ بھارتی فوج کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائکس کرنی چاہئیں، تاکہ، ان کے بقول، ''پاکستانی فوج اور دہشت گردوں کی جانب سے بھارتی فوج کے سپاہیوں کے خلاف کی گئی بربریت کا بدلہ لیا جاسکے''۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG