رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: پابندیوں کی فضا میں سوشل میڈیا آزادی کا جھونکا


میڈیا کارکن سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک کشمیری نوجوان کی گرفتاری کا منظر محفوظ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
میڈیا کارکن سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک کشمیری نوجوان کی گرفتاری کا منظر محفوظ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور ان کے قائدین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے حکومت نے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ انہیں جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہے اور نہ عوام سے بلا روک ٹوک ملنے جلنے کی۔ سرکردہ آزادی پسند لیڈروں کو اکثر ان کے گھروں میں نظر بند رکھا جاتا ہے یا پھر حراستی مراکز میں قید کر دیا جاتا ہے۔

عہدیدار ان پابندیوں کے جواز میں کہتے ہیں کہ ریاست کی حفاظتی صورتِ حال چونکہ اطمینان بخش نہیں ہے اس لیے علیحدگی پسندوں کو سیاسی سرگرمیاں کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رکھنے کی اجازت دینے سے معاملات مزید سنگین اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اپوزیشن ان حکومتی پابندیوں کو غیر جمہوری، جابرانہ اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق سلب کرنے کا دانستہ اقدام قرار دیتی ہے اور اس کے خلاف احتجاج کرتی آئی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف پابندیوں کی اس صورت حال میں سوشل میڈیا کو عوام تک رسائی کے لیے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس سے ان پر عائد پابندیاں کسی حد تک بے اثر ہو رہی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے حق رائے دہی کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ شورش زدہ ریاست میں سرکاری فورسز کے ہاتھوں مبینہ طور پر جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی ریلیاں منعقد کی جائیں گی اور کینڈل لائٹ ویجلز کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس پر پولیس نے فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے اتحاد میں شامل قائدین، ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما اور 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کے ایک رکن میر واعظ عمر فاروق نے گھر میں اپنی نظر بندی کے دوران انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا خاص طور پر ٹوئٹر کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی صورت حال سے متعلق اپنے موقف اور سیاسی نقطہ نظر کو پوری دنیا تک پہنچا دیا۔ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیو گُتیرس کے نام اپنا ایک مکتوب سیدھا ان کے دفتر میں پہنچانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔

میر واعظ عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا "ہم لوگ چونکہ کشمیر کی سیاسی حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی امنگوں اور خواہشات کی بات کرتے ہیں، اس لیے ہماری سرگرمیوں پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ ہمیں عوام تک پہنچنے سے روکا جاتا ہے۔ جلسے جلوس منعقد کرنے کی بات تو الگ، ہمیں بعض اوقات بند کمروں میں میٹنگیں بھی نہیں کرنے دی جاتیں۔ 2008 کے بعد یہ سلسلہ بڑھ گیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "لیکن ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کی کوششیں کیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک پسند جماعتوں کی سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بُک، ٹویٹر اور یو ٹیوب کی وساطت سے لوگوں تک رسائی بڑی حد تک ممکن ہو سکی ہے۔ ہم سوشل میڈیا کی بدولت یہاں کے حالات کے بارے میں بیرونی دنیا کو آگاہ کرانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھ پائے ہیں"۔

اتحاد میں شامل سید علی شاہ گیلانی بھی لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' میں شامل تیسرے اہم لیڈر محمد یاسین ملک بھی اس سال مارچ میں گرفتاری سے پہلے فیس بُک اور ٹوئٹر پر خاصے سرگرم نظر آ رہے تھے۔ یہ اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے دوسرے کشمیری لیڈر اپنے پیغامات اور تقریروں اور دوسری سرگرمیوں پر مبنی ویڈیوز کو ریاست کے اندر اور بیرونی دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے انہیں یو ٹیوب پر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔

بھارت کے قومی سیاسی دھارے میں شامل علاقائی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی لوگوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ سرگرم رہنے والے بھارتی سیاست دانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر فالوورز کی تعداد 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی بھی اپنے حلقہ اثر سے رابطے میں رہنے اور زیادہ سے زیادہ ممکنہ حامیوں تک پہنچنے کے لیے پچھلے چند ماہ سے ٹویٹر پر خاصی سرگرم نظر آرہی ہیں۔

تاہم، صحافی اور تجزیہ کار شیخ عبدالقیوم بھارت نواز اور آزادی پسند لیڈروں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "اگر مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین یہ کہتے ہیں کہ وہ ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تو وہ یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ وہ لوگوں سے بہت فاصلے پر ہیں۔ جہاں تک علیحدگی پسندوں کا تعلق ہے تو سوشل میڈیا کا استعمال ان کے لیے ایک مجبوری ہے، کیونکہ انہیں عوام سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے"۔

سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے عام لوگ بھی اسے اپنے سیاسی نظریات کی تشہیر اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اظہارِ خیال کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ ان واقعات سے جڑی تصاویر، ویڈیوز وغیرہ بھی فیس بک، ٹوئٹر، یو ٹیوب اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر ڈالتے ہیں۔

تاہم، عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بعض عوام دشمن اور شر پسند عناصر سوشل میڈیا کا بے جا اور غلط استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ، جب بھی ریاست یا اس کے کسی حصے میں انہیں مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے تو وہ موبائل انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیتے ہیں۔ عہدیدار کہتے ہیں کہ تشدد کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔

ریاست میں سال 2018 میں انٹرنیٹ 32 مرتبہ مکمل اور 127 بار جزوی طور پر بند کیا گیا۔ پوری ریاست میں انٹرنیٹ صارفین کی کل تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ ہے۔ ان میں سے 70 لاکھ کا تعلق شورش زدہ وادی کشمیر سے ہے، جہاں انٹرنیٹ سروسز کو بند کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے۔

ریاست کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’انٹرنیٹ ایک سرکش آلہ بن گیا ہے۔ جب بھی کہیں لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے، اسے خصوصی مفاد رکھنے والے عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں باقی مقامات پر بھی امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

تاہم، انٹرنیٹ کے استعمال پر بار بار لگائی جانے والی پابندی سے مقامی معیشت پر منفی اثر پڑا ہے۔ صارفین نالاں ہیں اور خاص طور پر تاجر اور طالب علم اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن سے صارفین کو یومیہ اڑھائی کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’انٹرنیشنل کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامِک ریلیشنز کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ سروسز کو بار بار معطل کرنے کی وجہ سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ صرف 2012 اور 2017 کے درمیان وادئ کشمیر کو چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

موبائل انٹرنیٹ سروسز پر بار بار عائد کی جانے والی پابندی کے پیش نظر استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے اور بھارت نواز سیاسی قائدین نے لیز لائنز لے رکھی ہیں یا وہ فکسڈ لینڈ لائن فونز پر دستیاب براڈ بینڈ کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG