رسائی کے لنکس

کشمیر پر بات چیت کا طریقہ کار پاکستان اور بھارت ہی نے طے کرنا ہے: امریکہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان روز اول ہی سے ایک متنازع معاملہ چلا آرہا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں صورت حال بدستور کشیدہ ہے اور مظاہروں کو سلسلہ جاری ہے۔

اس صورت حال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امریکی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کشمیر سے متعلق بات چیت کے طریقہ کار کو پاکستان اور بھارت نے ہی طے کرنا ہے۔

ترجمان کے بقول دونوں ملک باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی مثبت اقدامات اٹھائیں گے امریکہ ان کی حمایت کرے گا۔

امریکی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان الزبیتھ ٹروڈیو نے پیر کو روزانہ کی نیوز بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر سے متعلق امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ "وہ (کشمیر میں ہونے والی) جھڑپوں سے آگاہ ہیں اور ہمیں (وہاں)تشدد پر تشویش ہے اور ہم اس کے پرامن حل کے تلاش کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں گے"۔

ایک پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بیان کو خوش آئند قرار دیا، تاہم اُنھوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کی میز تک کون لائے گا۔

’’پاکستان چاہتا بھی ہے کہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان تو (مذاکرات کی میز پر) آ جائے گا لیکن بھارت کو قائل کرنے میں جو کردار وائٹ ہاؤس یا واشنگٹن ادا کر سکتا ہے وہ دوسرا کوئی نہیں کر سکتا ہے۔‘‘

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اُس بیان پر کسی بھی طرح کے ردعمل سے اجتناب کیا جس میں میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق سوال اٹھایا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے یوم آزادی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے پیر کو خطاب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہاں لوگوں کے حقوق کی بھی بات کی جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیر علیحدگی پسند کمانڈر برہانی وانی کی بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاکت کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں اب تک لگ بھگ ساٹھ افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔

کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان روز اول ہی سے ایک متنازع معاملہ چلا آرہا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل یعنی پیر کو پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو کشمیر کے معاملے پر مذاکرات کے لیے اسلام آباد آنے کی باضابطہ دعوت دی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق خط میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔

اتوار کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان سے تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کرنا چاہتا ہے، لیکن اُن کی طرف بات چیت کے عمل کی شروعات کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی تھیں۔

جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نا صرف سرحد پار سے مبینہ اشتعال انگیزی بند کرے بلکہ ’’حافظ سعید اور سید صلاح الدین‘‘ کی حمایت بھی بند کرے۔

وکاس سواروپ نے اپنے بیان یہ بھی کہا تھا کہ بات چیت سے قبل پاکستان پٹھان کوٹ اور ممبئی بم حملوں کی تحقیقات بھی آگے بڑھائے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی کشمیر میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کر رہا ہے تاہم وہ اپنے سابقہ موقف کے تحت کشمیریوں کی جدوجہد کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھے۔

XS
SM
MD
LG