رسائی کے لنکس

مذاکراتی عمل کے اعلان پر بھارتی کشمیر میں مِلا جُلا ردِ عمل


راجناتھ سنگھ (فائل)
راجناتھ سنگھ (فائل)

وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات وقت کی ایک اہم ضرورت اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

بھارت کے وفاقی وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ کی طرف سے پیر کے روز کئے گئے اس اعلان پر کہ حکومت نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں دیرپا مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، شورش زدہ ریاست میں مِلا جُلا ردِ عمل ہوا ہے۔

ریاست کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات وقت کی ایک اہم ضرورت اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اُن کے مطابق، وفاقی حکومت کا یہ قدم وزیرِ اعظم نریندر مودی کے 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر کئے گئے اس اعلان کے عین مطابق ہے کہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے ہی مسائل کا حل ڈھونڈنا ممکن ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نے تاریخی لال قلعے سے کی گئی اپنی ان تقریر میں کہا تھا کہ، "نہ گولی سے، نہ گالی سے؛ کشمیر کی سمسیا (مسئلہ) سلجھے گی گلے لگانے سے"۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے قائم مقام صدر عمر عبداللہ نے بھارتی وزیرِ داخلہ کے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان پر محتاط انداز میں ردِ عمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا، "(وفاقی) حکومت نے کشمیر پر ایک نیا مذاکرات کار مقرر کر دیا ہے۔ ہم اس معاملے میں ایک کھلا ذہن رکھتے ہیں اور مذاکراتی عمل کے نتائج کا انتظار کریں گے"۔

وزیرِ داخلہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ سِلسلہ جنبانی اور باضابطہ مذاکراتی عمل کے دوران نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے لوگوں کی جائز خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے ردِ عمل میں عمر عبد اللہ نے کہا، "جائز خواہشات ایک دِلچسپ ضابطہ بندی ہے۔ جائز کیا ہے یہ کون طے کرےگا"۔

انہوں نے یہ استفسار بھی کیا کہ بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی) کی طرف سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ ٹرر فنڈنگ معاملے کی جو تحقیقات ہورہی ہے اُس کا کیا ہوگا۔ کیا گرفتار کئے گئے حریت کانفرنس کے قائدین کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کے لئے یہ تحقیقات معطل کی جائے گی۔

تاہم، نیشنل کانفرنس کے لیڈر نے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان کو اُن عناصر کی شکست قرار دیدیا جو ریاست میں جاری تحریکِ مزاحمت کو دبانے کے لئے سخت گیر اقدامات اُٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ،"مسئلہ کشمیر کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا اُن لوگوں کی بھرپور شکست ہے جو صرف طاقت کے استعمال کو اس کا حل سمجھتے ہیں"۔

سابق بھارتی وزیرِ داخلہ اور اپوزیشن کانگرس پارٹی کے سرکردہ لیڈر پی چدم برم نے بھی اسی طرح کے خیال کا اظہار کیا۔ انہوں نے سماجی ویب سائٹ ٹویٹر کام پر لکھا۔" بات نہ کرنے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے تک یہ ایک عظیم کامیابی ہے اُن لوگوں کی جو کشمیر کے سیاسی حل پر مضبوطی کے ساتھ زور دیتے آئے ہیں۔ مجھے اُمید ہے مذاکرات کار کا تقرر کرکےحکومت نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ کشمیر میں اس کی دھونس اور دباؤ سے کام لینے کی پالیسی ناکام ہوگئی ہے"۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے لیڈر اور سرکردہ مذہبی راہنما میرواعظ عمر فاروق سے جب وائس آف امریکہ نے رابطہ قائم کرکے حکومت بھارت کے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان پر اُن کا ردِ عمل جاننا چاہا، تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتے کیونکہ یہ واضح نہیں کی حکومت کن لوگوں کو اسٹیک ہولڈر سمجھتی ہے اور کن سے بات کرنا چاہتی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG