رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے سے متعلق اپیل کی سماعت ملتوی


بھارتی کشمیر میں ایک مظاہرے کے دوران پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
بھارتی کشمیر میں ایک مظاہرے کے دوران پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

آزادی پسند کشمیری راہنماؤں کا کہنا ہے ریاست کو حاصل خصوصی حیثیت کے خلاف درخواست کا مقصد غیر مسلموں کو کشمیر میں بسا کر وہاں مسلم اکثریت کو ختم کرنا ہے۔

یوسف جمیل

پیر کو بھارتی سپریم کورٹ نے آئین ہند کی دفعہ 35 اے کو ختم کرنے لے لئے دائر کی گئی مفادِ عامہ کی درخواست پر سماعت 12 ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

دفعہ35 اے کے تحت جموں کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصي حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی اسمبلی کو حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگردفعہ35اےمنسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927 سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت صرف اس کے پشتنی باشندے ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خرید اور بیچ سکتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ35اے کو ہٹانے کے لئے درخواست قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پشت پناہی میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم، وی، دی سٹیزنز، نے دائر کی ہے اور کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالت اس آئینی ضمانت کو منسوخ کر سکتی ہے۔

عدالت میں آئین ہند کی دفعہ370 کے خلاف بھی ایک درخواست زیرِ سماعت ہے۔ اس دفعہ کے تحت ریاست کو ہند یونین میں خصوصي آئینی پوزیشن حاصل ہے۔

کشمیری جماعتوں جن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں کا استدال ہے کہ دفعہ35 اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کی ساخت تبدیل کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو ہندوتو ا سیاست کا ایک حصہ ہے، مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے تین سرکردہ قائدین سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے اتوار کو اپنے ایک مشترکہ بیان میں خبر دار کیا تھا کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے ان کے بقول کشمیری عوام کے مفادات کے خلاف فیصلہ دیا تو ریاست میں ایک ہمہ گیر ایجی ٹیشن شروع کی جائے گی۔ بیان میں لوگوں سے احتجاج کے لیے تیار ہونے کا کہا گیا تھا۔

ان لیڈروں نے بھارت پر متنازعہ کشمیر کے اس کے زیرِ انتظام علاقے میں فلسطین جیسے حالات پیدا کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ آئینی دفعات کے ساتھ دانستہ چھیڑ چھاڑ یہاں غیر مسلموں کو بساکر ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو بدلنے کے کی جا رہی ہے

بی جے پی اس طرح کے الزامات کی ترديد کرتی ہے ۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے بھارت میں مکمل انضمام کے حق میں تو ہے لیکن وہ چونکہ ریاست کی مخلوط حکومت کا ایک حصہ ہے اس لئے حلیف جماعت علاقائی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ طے پائے سمجھوتے کا لحاظ کرتے ہوئے دفعہ370 کو منسوخ کرنے کے اپنے مطالبے پر فی الحال زور نہیں دے رہی ہے۔

بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے پیر کو سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ دفعہ 35 اے پر دائر کی گئی درخواست پر سماعت چھ ماہ کے لئے ملتوی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بھارتی حکومت نے کشمیر میں قیامِ امن کی کوششوں کے سلسلے میں حال ہی میں ایک نئے مذاكرات کار کا تقرر کیا ہے، ریاست کو حاصل خصوصي اختیارات پر کوئی بھی فیصلہ ان کوششوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

عدالت کے ایک سہ رکنی بینچ نے بظاہر اُن کی اس دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے دفعہ 35 اے سے متعلق تمام درخواستوں کی سماعت 12 ہفتوں کے بعد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

XS
SM
MD
LG