رسائی کے لنکس

بھارت میں پاکستان کے حالات کی کوریج؛ ’پڑوس میں آگ لگی ہو تو یہ اچھی خبر نہیں‘


پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کو بھارتی میڈیا میں بھی خصوصی کوریج دی جا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا نے خاص طور پر مظاہرین کے راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور لاہور کے کورکمانڈر ہاؤس میں داخل ہونے کے واقعات کو اہمیت دی ہے۔

بھارت میں ہندی کے بڑے اخبار ’دینک بھاسکر‘ میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج اور مظاہروں میں ہونے والے پرُتشدد واقعات کی خبریں شائع کی گئیں۔

دینک بھاسکر کی ویب سائٹ پر پاکستان کی صورتِ حال پر لائیو بلاگ بھی چلایا جارہا ہے جس میں عمران خان کی گرفتاری سے متعلق خبروں، ان پر درج مقدمات کی تفیصلات اور پر تشدد واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔

ہندی کا ایک اور موقر اخبار ’دینک جاگرن‘ بھی عمران خان کی گرفتاری اور پاکستان کی صورتِ حال کی کوریج کررہا ہے۔

روزنامہ جاگرن میں عمران خان کی گرفتاری کی کوریج میں پاکستان میں گرفتار ہونے والے سابق وزرائے اعظم سے متعلق سائیڈ اسٹوریز بھی شامل ہیں۔

’فوج کی مقبولیت کم ترین سطح پر‘

بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے منگل کو عمران خان کی گرفتاری پر اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کئی ہفتوں سے جاری بے یقینی کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بالآخر کڑوی گولی نگل لی ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے گرفتاری سے پاکستان میں انتشار کے شکار سیاسی حالات مزید خراب ہوں گے۔ موجودہ صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی بلاول بھٹو زرداری عمران خان کو لوگوں کو سڑکوں پر لانے سے روکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا طرزِ عمل کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اسی طرح عدلیہ کے فیصلے بھی اہم ہوں گے۔

اس کے علاوہ ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس اور دیگر اخبارات نے بھی اپنے اداریوں میں پاکستان کی سیاسی بے چینی کو موضوع بنایا ہے۔

عمران خان کی نااہلی سب سے اہم سوال

نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف شیکھر گپتا نے عمران خان کی گرفتاری کے پس منظر سے متعلق تفصیلی ولاگ کیا ہے۔

شیکھر گپتا کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں اہم سوال یہ ہے کہ جو کیس عمران خان پر بنایا جارہا ہے اس کی بنیاد پر انہیں سیاست کے لیے نااہل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

ایک اور بھارتی صحافی اور انٹرویوز کی وجہ سے شہرت رکھنے والے میزبان کرن تھاپڑ نے بھی عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے ایک گھنٹے سے زائد طویل پروگرام کیا جس میں انہوں نے سنیئر صحافی حامد میر اور عمران خان کے ترجمان رؤف حسن سے بات چیت کی۔

بھارتی صحافی رعنا ایوب نے عمران خان کی گرفتاری کے مناظر شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا :’’یہ پاکستان کے مناظر ہیں۔ ایک ملک جو گہرے سیاسی انتشار کا شکار ہے‘

’پڑوس میں آگ لگی ہو تو یہ اچھی خبر نہیں‘

نیوز چینل ’انڈیا ٹی وی‘ کے ایڈیٹر ان چیف اور بھارت کے معروف ٹی وی میزبان رجت شرما نے پاکستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں صورتِ حال کسی کے قابو میں ںہیں آرہی ہے۔

رجت شرما نے مزید لکھا کہ پاکستان میں جاری بحران بڑھتا نظر آتا ہے۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو پڑوس میں بڑھتا عدم استحکام اچھی خبر نہیں۔ کوئی بھی اپنے گھر میں آگ بھڑکا سکتا ہے اور اگر پڑوسی کے گھر میں آگ بھڑک اٹھے جو آپ کا دشمن بھی ہو تو یہ شعلے ہمسایوں کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں۔

فوج میں "تقسیم" کی بازگشت

پاکستان کے سخت ناقد تصور ہونے والے بھارتی چینل ’آج تک‘ کے اینکر سدھیر چوہدری نے اپنے تبصرے میں کہا کہ پاکستان اس وقت تشدد کی لپیٹ میں ہے اور اس کی اہم بات یہ ہے کہ اس بار یہ تشدد پاکستان کی فوج اور انٹیلی جینس ایجینسی آئی ایس آئی کے خلاف ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سوال آپ کے ذہن میں آرہا ہوگا کہ جس ملک میں وزیرِ اعظم کو گرفتار کرلیا جاتا ہے وہاں فوج اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو کیوں نہیں روک رہی۔

سدھیر چوہدری نے دعویٰ کیا کہ فوج کا ردِ عمل نہ دینے کی ایک وجہ اس میں داخلی طور پر پایا جانے والا اختلاف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج میں پنچاب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور احتجاج کرنے والوں کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر فوجی بغاوت بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔

ایک اور بھارتی صحافی اور اینکر برکھا دت نے بھی لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس میں مشتعل افراد کی توڑ پھوڑ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں پاکستانی صحافی منیزے جہانگیر سے گفتگو کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فوج کا ایک سیکشن عمران خان کی حمایت نہ کررہا ہو۔ یہ اب فوج بمقاملہ فوج کا معاملہ ہوگیا ہے۔

واضح رہے پاکستان تحریک انصاف نےفوجی تنصیبات پر ہونے مشتعل مظاہرین کے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ پاکستانی فوج سیاست میں مداخلت سے متعلق الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔

XS
SM
MD
LG