رسائی کے لنکس

کویت میں نئی قانون سازی، آٹھ لاکھ بھارتی باشندوں کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خلیجی ممالک میں بھارت کے باشندوں کی بڑی تعداد مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ عالمی کساد بازاری اور دنیا کی معیشت پر کرونا وائرس کی وجہ سے منفی اثرات سے ان بھارتی شہریوں کی ملازمتیں ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔

حالیہ دنوں میں تیل کی قیمت بھی مسلسل کم ہو رہی ہے جس کا اثر خلیج کے ممالک کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورتِ حال یوں ہی برقرار رہی تو بڑی تعداد میں بھارتی باشندوں کو ان ممالک سے واپس بھارت آنا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت میں بے روزگاری کا مسئلہ اور سنگین ہو جائے گا۔

اس صورتِ حال کا اشارہ اس وقت ملا جب یہ خبر آئی کہ کویت کی قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے قانونی امور نے غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد کو کم کرنے سے متعلق ایک بل کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بل مشاورت کے لیے ایک دوسری کمیٹی کے پاس جائے گا۔ اگر اس کمیٹی نے بھی اس کی منظوری دے دی اور بل نے قانونی شکل اختیار کر لی تو کم از کم آٹھ لاکھ بھارتی تارکین وطن کو واپس آنا پڑے گا۔ اس صورت حال سے اندرونِ ملک بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مذکورہ بل میں کہا گیا ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی 48 لاکھ میں بھارتی باشندوں کی تعداد 15 فی صد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کویت میں بھارتی باشندوں کی تعداد 14 لاکھ ہے جو کہ مصری باشندوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہے۔

اس بل میں دوسرے ممالک کے باشندوں کے لیے بھی ایسے ہی کوٹے کی تجویز رکھی گئی ہے۔

ایک ماہ قبل کویت کے وزیرِ اعظم شیخ صباح الخالد الصباح نے کہا تھا کہ تارکین وطن کی آبادی 70 فی صد سے کم کرکے 30 فی صد کی جانی چاہیے۔

بھارتی شہروں کا کمزور نظام صحت اور کرونا وائرس
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:25 0:00

ان کے بقول اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ہمارے سامنے اس عدم توازن کو ختم کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔

ان کے اس بیان کو سرکاری نیوز ایجنسی نے بھی جاری کیا تھا۔

خلیجی ممالک سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر اشتیاق دانش نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کویت کا مسئلہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے ہے۔ صرف آبادی میں عدم توازن کی وجہ سے ہی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ دیگر خلیجی ممالک کی مانند کویت میں بھی اقتصادی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور وہ بھی کساد بازاری کا شکار ہے۔

ان کے مطابق کویت میں بنیادی طور پر معیشت پر ریاست کا کنٹرول ہے۔ جتنے بھی منصوبے چل رہے ہیں سب ریاست کے ہیں۔ ریاست کا واحد ذریعہ آمدن تیل ہے۔ اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی بازار میں بہت کم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ریاست کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے حکومت کو بہت سے منصوبے بند کرنے پڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیگر خلیجی ممالک سے بھارتی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر کویت سے آٹھ لاکھ افراد واپس آتے ہیں تو بھارت میں بے روزگاری کا مسئلہ اور سنگین ہو جائے گا۔

ان کے بقول بھارت کو حاصل ہونے والے غیر ملکی زرِ مبادلہ پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں کویت سے بھارت کو چار ارب 80 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔

اشتیاق دانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی تو قومی اسمبلی نے بل منظور کیا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ یہ قانونی شکل اختیار کر لے۔

شہر میں کام نہیں، گاؤں جانے کو ٹرانسپورٹ نہیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

اس سوال پر کہ کیا بھارت کی حکومت اس بارے میں کویت سے بات کرے تو کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ پر انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بات کرتی ہے تو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلنے کی امید ضرور ہے۔

ان کے مطابق کویت کے امیر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مذکورہ قانون کو تسلیم کر لیں۔ ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے کالعدم کر دیں۔

اشتیاق دانش کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے ممالک اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ بھارت کی معیشت پہلے ہی ابتر حالت میں پہنچ گئی تھی۔ کرونا کی وجہ سے بھی اس پر منفی اثر پڑا ہے اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کویت سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ واپس آتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ان کو یہاں روزگار یا کوئی ملازمت مل سکے۔ لہٰذا اس کا اثر یہاں کی معیشت پر اچھا نہیں ہو گا۔

گزشتہ ہفتے خلیج کے کثیر الاشاعت اخبار 'گلف نیوز' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کرونا وائرس کے آغاز سے ہی کویت میں غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد کو کم کرنے کی آواز بلند ہو رہی ہے جب کہ قانون دان اور دیگر حکام کی جانب سے غیر ملکیوں کی تعداد میں تخفیف پر زور دیا جا رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کویت میں بھارتی سفارت خانہ مجوزہ قانون سے متعلق صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس بارے میں تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG