متحدہ عرب امارا ت نہ صرف اپنے عالیشان شاپنگ سینٹرز بلکہ علاج کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اسپتالوں کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن شروع میں ایسا نہیں تھا۔
سن ساٹھ کے عشرے میں دبئی اور یو اے ای کی دیگر ریاستوں میں محاورتا ًنہیں بلکہ حقیقت میں یہاں دھول اڑا کرتی تھی اور مریضوں کو علاج کے لئے دوسرے ملکوں سے بلائے جانے والے ڈاکٹروں کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ایسے میں ایک لڑکی نے جب ڈاکٹری کی ڈگری لے کر یو اے ای کا رخ کیا تو اسے معلوم نہ تھا کہ وہ یو اے ای کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہونے کا اعزاز اپنے نام کر رہی ہے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے گائنا کولوجسٹ بننے والی ڈاکٹر زلیخا داؤد نے گریجویشن کے فوری بعد کویت میں کام کرنے والی ایک امریکی مشنری میں نوکری کی درخواست دی اور ابتدائی مراحل سے گزر کر دبئی پہنچی تو سمجھو جیسے دنیا ہی بدل گئی۔
سن 1963 میں جب پہلی بار ڈاکٹر زلیخا نے دبئی کی سر زمین پرقدم رکھا تو ان کے بقول کوئی باقاعدہ ائیرپورٹ بھی نہیں تھا صرف رن وے تھا ،ہر طرف مٹی دھول تھی اور شدید گرمی استقبال کو تیار۔
ڈاکٹر زلیخا داؤد جن کی عمر اب 80 سال ہے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’پہلی نوکری کا آغاز صحرا میں بننے والے ایک عارضی اسپتال سے ہوا جہاں کے رہائشی زیادہ تر قبائلی تھے۔ سچی بات ہے دبئی کا تو نام بھی نہیں سنا تھا لیکن جب آ کر دیکھا تو پتا چلا یہاں ڈاکٹرز کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ شام اور لبنان سے جو ڈاکٹرز آتے وہ شدید گرمی اور سہولتوں کے فقدان کو دیکھ کر واپس اپنے ملک لوٹ جاتے۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران انہوں نے مزید بتایا ’’میں تھی تو گائناکولوجسٹ لیکن یہاں آ کر سانپ کے کاٹے،جلدی بیماریوں اور جلے ہوئے مریضوں تک کا علاج کرنا پڑا۔ بچوں کی ڈلیوری کے لئے کوئی خاتون ڈاکٹر بھی موجود نہیں تھی۔ ٹی بی اور ڈائریا بھی پھیل رہا تھا۔ غرض کام کرنا بڑا مشکل اور کٹھن تھا، خصوصاً علاج کے لئے درکار سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے۔ لیکن جب دیکھا کہ لوگوں کو میری ضرورت ہے تو سب بھلا کر اپنے کام میں لگ گئی۔‘
روایتی مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زلیخا داؤد نے دبئی آنے پر خاندان کے ردعمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ’ اس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک نوجوان غیرشادی شدہ لڑکی اکیلی ملک سے باہر بھی جا سکتی ہے لیکن میرے والدین جو تعلیم یافتہ نہیں تھے بہت کھلے ذہن کے تھے۔ انہوں نے نہ صرف مجھے اکیلے جانے کی اجازت دی بلکہ ہر قدم پر میری ہمت بڑھائی اورحوصلہ افزائی کی۔‘
کچھ مہینے دبئی میں کام کرنے کے بعد ڈاکٹر زلیخا کو شارجہ میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں ایک چھوٹا سا کلینک قائم کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر زلیخا نے یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا ’ دبئی سے شارجہ بارہ کلو میٹر دور ہے۔ اس وقت کوئی سڑک بھی نہیں تھی، صحرا میں سفر کرنا پڑا اور کئی بار تو گاڑی ریت میں دھنس گئی۔‘
جیسے جیسے ڈاکٹر زلیخا کام کرتی گئیں لوگوں میں ان کی پہچان اور شناخت بنتی گئی۔ مقامی لوگ ڈاکٹر زلیخا کو اپنی خواتین کے لئے ’خاص تحفہ‘ کہتے تھے اور ان کو متعدد اعزازات سے بھی نوازا۔
سن 1971 میں متحدہ عرب امارات کے باقاعدہ قیام کے بعد ڈاکٹر زلیخا نے اسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے آبائی علاقے ناگپور میں بھی لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ایک کینسر سینٹر سمیت تین بڑے اسپتال بنائے جن میں علاج کی بہترین سہولتیں موجود ہیں۔
ڈاکٹرز لیخا کہتی ہیں ’یواے ای نے اپنے قیام کے بعد ہر شعبے میں انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کی۔ میں اس ترقی کی گواہ بھی ہوں اور اس ترقی سے فائدہ پانے والوں میں سے بھی ہوں۔ یو اے ای کے لئے میرے دل میں خصوصی جگہ ہے خاص طور پر حکمرانوں کے لئے جنہوں نے مجھے اسپتال بنانے میں بہت مدد دی اور حوصلہ افزائی کی۔‘
تقریباً نصف صدی تک انتھک محنت اور کام کرنے والی ڈاکٹرز لیخانے بالآخر کچھ آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور آج کل وہ ’تقریبا‘ ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہیں اور روزانہ صرف دو گھنٹے اپنے شارجہ کے اسپتال میں بیٹھتی ہیں۔ ڈاکٹر زلیخا کا کہنا ہے’ بھارت میرا ملک تھا اور رہے گا لیکن اب میرا ملک یو اے ای بھی ہے۔‘