رسائی کے لنکس

بھارت: پیگاسس 'اسپائی ویئر' معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت پر سخت تنقید


بھارتی عدالت عظمیٰ (فائل فوٹو)
بھارتی عدالت عظمیٰ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ نے پیگاسس 'اسپائی ویئر' معاملے پر سماعت کرتے ہوئے حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جاسوسی کے الزام کا تعلق شہریوں کے بنیادی حق سے ہے، اس کے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے اور بلا اجازت جاسوسی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ جب شہریوں کے آئینی حقوق داؤ پر لگے ہوں تو حکومت قومی سلامتی کی خلاف ورزی کے نام پر ’فری پاس‘ حاصل نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے کہا کہ حکومت قومی سلامتی کے نام پر عدالت کو اس معاملے کی جانچ سے نہیں روک سکتی۔ جج نے کہا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس میں غیر ملکی ایجنسی کے ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔

عدالت نے اس معاملے کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج آر وی رویندرن کی قیادت میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی میں تین تکنیکی ماہرین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ عدالت نے کمیٹی کو اپنی رپورٹ دینے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا ہے۔

عدالت نے 'پرائیویسی اور ٹیکنالوجی' دونوں کی اہمیت کا ذکر کیا اور کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال عوامی زندگی کو بہتر بنانے اور اس کے ساتھ ہی پرائیویسی میں مداخلت کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ پیگاسس معاملے میں 12 پٹیشنز پر سماعت کر رہی تھی۔ پٹیشن داخل کرنے والوں میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، سینئر صحافی این رام، سابق وزیر مالیات یشونت سنہا اور سینئر صحافی پرنجے گہا ٹھاکرتا شامل ہیں۔

عدالت نے کہا کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اطلاعات کی فراہمی اور شہریوں کے پرائیویسی کے حق میں توازن برقرار رہنا چاہیے۔

قبل ازیں 30 جولائی کو اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پٹیشنرز کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کے دلائل کو تسلیم کیا اور اس پر سماعت پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

عدالت نے حکومت کو نوٹس جاری کرکے ہدایت دی تھی کہ وہ حلف نامہ داخل کرکے اپنا موقف واضح کرے اور یہ بتائے کہ اس نے جاسوسی کروائی ہے یا نہیں۔ اس پر حکومت نے ایک مختصر مگر مبہم حلف نامہ داخل کیا تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت نے جاسوسی کے الزام میں اپنی پوزیشن صاف نہیں کی ہے اور اس نے انتہائی مختصر حلف نامہ داخل کیا، حالانکہ اس کو اس کے لیے کئی مواقع دیے گئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے سے کبھی پرہیز نہیں کیا۔ پرائیویسی کا حق صرف صحافیوں اور سیاست دانوں کا نہیں بلکہ عام شہریوں کا بھی ہے۔ عدالت کے مطابق صحافیوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔

اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے اس معاملے کی جانچ کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ عدالت نے قومی سلامتی کے نام پر حکومت کا خود کو بچانے اور اس معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک ٹوئٹ میں الزام عائد کیا کہ فسطائی طاقتیں نقلی قوم پرستی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق ڈائریکٹر آکار پٹیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بہتر ہوتا کہ عدالت کمیٹی بنانے کے بجائے حکومت سے پوچھتی کہ وہ یہ بتائے کہ اس نے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے سویلین، صحافیوں اور اپوزیشن رہنماوں کی جاسوسی کی ہے یا نہیں۔ وہ ہاں یا نہیں میں جواب دے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے جب سپریم کورٹ نے حکومت کو اس بارے میں حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی تو حکومت نے حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو اسی وقت حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے تھا اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے تھا کہ وہ بتائے کہ اس نے جاسوسی کی ہے یا نہیں۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے چیف جسٹس آف انڈیا کو جس کے بارے میں نہیں بتایا تو وہ کمیٹی کو کیسے بتائے گی۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کمیٹی بنائی ہے اس سے ان کو کسی نتیجے تک پہنچنے کی امید نہیں ہے۔

ان کے بقول، پیگاسس کا معاملہ بہت سنگین ہے، کیونکہ حکومت پر جن لوگوں کی جاسوسی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ان میں اپوزیشن کے رہنما

اور میڈیا کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں وہ خاتون بھی شامل ہے جس نے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔

انھوں نے سوال کیا کہ حکومت آخر ان لوگوں کی جاسوسی کیوں کرا رہی تھی۔ ان کے خیال میں یہ معاملہ حکومت کی جانب سے اعتراف یا انکار کا تھا۔ اس سلسلے میں کمیٹی کی تشکیل مناسب نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت سے اس معاملے میں جواب حاصل نہ کر پانا عدالت کی کمزوری تو نہیں ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت عدالت سے جو کروانا چاہتی تھی وہ اس نے کروا لیا۔ یعنی حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے جاسوسی کروائی ہے یا نہیں بلکہ اس نے اس معاملے میں ایک کمیٹی بنوا کر بظاہر خود کو بچا لیا۔

یاد رہے کہ رواں سال 18 جولائی کو ایک بین الاقوامی کنسورشیم نے اپنی تحقیقات میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ وئیر کے ذریعے بھارت کے تین سو سے زائد موبائل فون نمبرس کو ٹارگیٹ کیا گیا جن میں 40 سے زائد صحافی، مودی حکومت کے دو وزرا، اپوزیشن رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، وکلا اور کئی بزنس مین شامل ہیں۔

حکومت نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اس سلسلے میں کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔ اس نے اسے ایک سنسنی خیز معاملہ قرار دیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی جمہوریت اور اس کے موقر اداروں کو بدنام کرنے کے لیے یہ الزام لگایا گیا ہے۔

این ایس او گروپ نے بھی جاسوسی کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ یہ رپورٹ غلط تصورات پر مبنی ہے اور اس کے ذرائع کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم، اس نے اس کا اعتراف کیا تھا کہ پیگاسس اس کی ملکیت ہے اور اس کا استعمال فون ہیک کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

لیکن اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسے صرف حکومت اور حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہے۔ وہ کسی پرائیویٹ ادارے یا انفرادی شخص کو یہ سافٹ وئیر فروخت نہیں کرتا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG