رسائی کے لنکس

نئی دہلی پولیس کا احتجاجی پہلوانوں کے خلاف مقدمہ، مظاہرین کا دھرنا جاری رکھنے کا اعلان 


بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی پولیس نے احتجاج کرنے والے پہلوانوں کے خلاف فسادات، کارِ سرکار میں مداخلت اوراہلکاروں پر حملے سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس کے مطابق دہلی میں دھرنے پر بیٹھے 109 مظاہرین سمیت سات سو افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ البتہ ان میں سے بیشتر کو اتوار کی رات دیر یکے بعد دیگرے رہا کر دیا گیا۔

چھوڑے جانے کے بعد پہلوان بجرنگ پنیا نے کہا کہ وہ لوگ گھر نہیں جائیں گے بلکہ دوبارہ دھرنا شروع کریں گے۔

ان کے مطابق وہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشاورت کر رہے ہیں جس میں آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

اسی دوران دہلی پولیس نے کہا ہے کہ اگر پہلوانوں کی جانب سے آئندہ دھرنے کے سلسلے میں کوئی درخواست آتی ہے تو انہیں جنتر منتر کے علاوہ کسی دوسرے مناسب مقام پر دھرنے کی اجازت دی جائے گی۔

واضح رہے کہ دہلی کی پولیس نے ‘ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا’ کے صدر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف دھرنے پر بیٹھے سرکردہ پہلوانوں کو اتوار کو حراست میں لیا تھا ۔

پولیس نے جنتر منتر پر پہلوانوں کے ٹینٹ بھی ہٹا دیے تھے جب کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ کو خالی کرا لیا تھا۔

یہ تمام کارروائی ایسے وقت میں کی گئی تھی جب دو کلومیٹر کی مسافت پر وزیرِ اعظم نریندر مودی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کر رہے تھے

احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

اولمپک اور کامن ویلتھ گیمز میں تمغے جیتنے والی خاتون پہلوانوں سمیت کئی پہلوان جن میں ایک نابالغ خاتون بھی شامل ہیں، برج بھوشن پر جنسی استحصال اور ہراسانی کا الزام لگا رہے ہیں۔

ان پہلوانوں نے گزشتہ ماہ 23 اپریل کو دھرنےکا آغاز کیا تھااور برج بھوشن شرن کی گرفتاری کا مطالبہ کر تے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی ۔

جن افراد کو حراست میں لیا گیا تھا ان میں ونیش پھوگاٹ، ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا قابل ذکر ہیں۔پولیس نے موقع پر سیکیورٹی کا غیر معمولی انتظام کیا تھا اور دفعہ 144 بھی نافذ تھی۔ لیکن جب پہلوانوں نے آگے بڑھنے اور سیکیورٹی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا تھا، جن میں سے بیشتر کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔

دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے پولیس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان خواتین پہلوانوں نے غیر ملکی سرزمین پر بھارت کا پرچم بلند کیا۔ لیکن آج ان بیٹیوں کو زمین پر گھسیٹا جا رہا ہے اور قومی پرچم کی توہین کی جا رہی ہے۔

ہریانہ اور اترپردیش کے کسانوں اور جاٹ برادری اور ان کی علاقائی پنچایتوں نے پہلوانوں کی حمایت میں دہلی پہنچنے کا اعلان کیا تھا۔

پولیس نے اترپردیش کے غازی پور بارڈر پر کسان رہنما راکیش ٹکیت اور ان کے حامیوں کو روک لیا تھا۔

اس پر ٹکیت کا کہنا ہے کہ پولیس نے ہم لوگوں کو روک دیا۔ اس نے انہیں دہلی نہیں جانے دیا۔ وہ یہیں دھرنے پر بیٹھیں گے اور آگے کی حکمتِ عملی طے کریں گے۔

ادھر ہریانہ کی علاقائی (کھاپ) پنچایتوں کی جانب سے بھی بہت سے جاٹ اور کسان دہلی آرہے تھے جنہیں ٹکری بارڈر پر روکا گیا۔

اس سے قبل راکیش ٹکیت نے پولیس سے کہا تھا کہ وہ ان لوگوں کو ہراساں نہ کرے۔ اگر انہیں مارچ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو انہیں جہاں روکا گیا ہم وہیں بیٹھ جائیں گے۔

ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ ایم پی نے پہلوانوں کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

پہلوانوں نے جب ان کا نارکو ٹیسٹ کرائے جانے کا مطالبہ کیا تو کئی روز کے بعد انہوں نے اس کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلوانوں کا بھی نارکو ٹیسٹ ہونا چاہیے۔

اس سے قبل جنوری میں بھی پہلوانوں نے برج بھوشن شرن کے خلاف دھرنا دیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل کیے جانے کے بعد انہوں نے دھرنا ختم کر دیا تھا۔

تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش نہیں کی اور کمیٹی کے ذمہ داروں پر ان کو اعتماد نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG