رسائی کے لنکس

ترکیہ کے صدارتی انتخابات میں ایردوان کی برتری، استنبول اور انقرہ میں تقاریر


صدر ایردوان تیسری مدت کے لئے ترکی کے صدر منتخب ہو گئے
صدر ایردوان تیسری مدت کے لئے ترکی کے صدر منتخب ہو گئے

ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے حتمی مرحلے کے تحت اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے بعد صدر طیب ایردوان نے کامیابی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مرحلے میں ترک صدر رجب طیب ایردوان اپنے حریف کمال کلیچ دار اولو کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب ان کا اقتدار مسلسل تیسری دہائی میں بھی جاری رہےگا۔

اتوار کو پولنگ کے اختتام پر 99فیصد بیلٹ باکسز کھلنے اور ووٹوں کی گنتی کے بعد مختلف خبر رساں اداروں کی جانب سے رپورٹ کئے گئے غیر حتمی نتائج کے مطابق ایردوان نے اپنے مد مقابل کمال کلیچ دار اولو کے مقابلے میں 52 فی صد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ ان کے حریف کمال اولو کے حق میں 48 فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ترکی کے الیکٹورل بورڈ کے سربراہ نے ایردوان کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹوں کی مکمل گنتی کے بعد نتیجہ یہی ہے کہ رجب طیب ایردوان تیسری مدت کے لئے ترکی کے صدر بن گئے ہیں

صدر ایردوان نے کامیابی کے اعلان کے لئے استنبول اور انقرہ میں الگ الگ تقاریر کیں۔ جن میں انہوں نے ترک عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پانچ مزید سالوں کے لئے ان کی صدارت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے نتائج سامنے آنے کے بعد استنبول میں اپنے گھر کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا،

“ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کے اعتماد پر پورے اتریں گے ، جیسا کہ ہم پچھلے اکیس سال سے ثابت کر رہے ہیں”

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 69 سالہ ایردوان نے رواں ماہ 14 مئی کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں متعدد عوامی سروے کے برعکس اپنے حریف کمال کلیچ دار اولو​ پر ووٹوں میں پانچ فی صد کی برتری حاصل کی تھی۔ تاہم ایردوان مطلوبہ 50 فی صد ووٹ حاصل کرنے سےدور رہے تھے ۔

معاشی بحران کے درمیان ایردوان کی غیر متوقع مضبوط حکمتِ عملی اور ان کی قدامت پرست اے کے پارٹی، اتحادی قوم پرست جماعت اور ایم ایچ پی سمیت دیگر اتحادیوں کو ترکیہ کے عوام نے اس لیے ووٹ دیا کیوں کہ ایردوان کا نعرہ تھا کہ ان کے لیے ووٹ ترکیہ کی استحکام کے لیے ووٹ ہوگا۔

دوسری طرف 74 سالہ کمال اولو حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے مشترکہ امیدوار اور جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں۔

اولو کا اتحاد بھی پہلے مرحلے میں 50 فی صد ووٹ حاصل نہ کرنے کے بعد ایک بار پھر سے ایردوان کو شکست دینے کے لیے کوشاں تھا۔

ترکیہ میں ہونے والے انتخابات میں نہ صرف یہ طے ہونا تھا کہ ترکیہ کا صدر کون ہو گا بلکہ ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی کے حامل نیٹو رکن ترکیہ پر حکومت کیسے کی جائے گی؟ اس کا تعین بھی انہی انتخابات کے ذریعے ہو نا تھا۔

ترکیہ کے ایک اخبار کا عکس
ترکیہ کے ایک اخبار کا عکس

یہ انتخابات ایک ایسے مرحلے پر ہو ئے ہیں جب ملک کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ایک دہائی میں کم ترین سطح تک آ چکی ہے جب کہ خارجہ پالیسی میں بھی ترکیہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ترکیہ میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں قوم پرست امیدواروں کے لیے توقع سے زیادہ حمایت دیکھی گئی جن میں کرد عسکریت پسندوں کے ساتھ برسوں کی دشمنی، 2016 میں ہونے والی بغاوت کی کوشش اور 2011 میں شام میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے لاکھوں پناہ گزینوں کی آمد کے باعث اضافہ دیکھا گیا ۔

ترکیہ کی وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق ترکیہ پناہ گزینوں کو پناہ دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ جہاں 50 لاکھ پناہ گزین آباد ہوئے ہیں جن میں سے 33 لاکھ شام کے شہری ہیں۔

انتخابات کے پہلے مرحلے میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے صدارتی امیدوار اور سخت گیر قوم پرست رہنما سینان اوغن کا کرد نواز گروپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نہ رکنے کی جدوجہد کی بنیاد پر ایردوان کی حمایت کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ اوغن کو پہلے مرحلے میں پانچ اعشاریہ ایک سات فی صد ووٹ ملے تھے۔

ایک اور قوم پرست ، امت اوزدیغ، جو کہ پناہ گزینوں کی مخالفت کرنے والی جماعت زیڈ پی کے رہنما ہیں، نے اولو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

زیڈ پی پارٹی کو پہلے مرحلے میں دو اعشاریہ دو فی صد ووٹ ملے تھے۔

انتخابات کے رن آف مرحلے سے قبل سروے کے مطابق 52.7 فی صد افراد نے ایردوان کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا جب کہ 47.3 فی صد کی حمایت کمال اولوکے ساتھ تھی۔

یہ سروے اوغن اور زیڈ پی پارٹی کے اعلانات سے قبل 20 مئی سے 21 مئی کے دوران کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ رن آف میں کردوں کے ووٹ بھی فیصلہ کن قرار دئیے جا رہے تھے۔ جو کہ کل آبادی کا پانچ فی صد ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG