رسائی کے لنکس

پاکستان کی قدیم تہذیب کے پُر اسراررنگ


ہڑپہ کا تاریخی ورثہ
ہڑپہ کا تاریخی ورثہ

اب تک قدیم وادی سندھ کا پُر اسرار ماضی یا تو زمین میں مدفون ہے یا پھرزیرِ آب ہے، جسے تلاش کیا جانا ابھی باقی ہے

وادی سندھ کی تہذیب مغربی بھارت سےشروع ہو کر شمالی افغانستان تک کے 68000کلومیٹر رقبے پرپھیلی ہوئی تھی، جس کا رقبہ مصر اور میسو پوٹیما کی تہذیبوں کے مجموعی علاقے سے دوگنا بنتا ہے۔

ہڑپہ اور موہن جو دڑو کے قدیمی شہر اِس تہذیب کے دو سب سے بڑے مراکز ہوا کرتے تھے، جہاں اب پاکستان واقع ہے۔

وادی سندھ سےدریافت ہونے والے نوادرات پرانے دور کی تحریر کے انداز کا پتا دیتے ہیں، جب کہ ہڑپہ عجائب خانے میں رکھا گیا رسم الخط کا نسخہ کم از کم 4400سال پرانا ہے۔ لیکن ، آج کی ٹیکنولاجی میں ترقی کے باوجود تحریر کے اِن نایاب وقدیم نسخوں کی پُر اسراریت کے رموز سے خاطر خواہ طور پر پردہ نہیں اُٹھا یاجا سکا۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اِن تاریخی کھنڈرات کی خاص بات یہ ہے دیارئے سندھ کی تہذیب شہری منصوبہ بندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ اُن کے پاس کنویں تھے، نکاسی آب کا نظام تھا اور ہڑپہ میں استعمال ہونے والی اینٹوں کا سائز اور وزن وہی تھا جو سینکڑوں کلومیٹر دور موہن جو دڑو میں موجود ہے۔

تاہم، ملک کی سکیورٹی صورتِ حال آثارِ قدیمہ اور نوادرات کو محفوظ رکھنے والے ماہرین کے اِن مقامات پر کام کرنے میں مانع ہے، جیسا کہ پاکستان میں یونیسکوکی طرف سےتعینات ثقافتی شعبے کے سربراہ، فرحت گل کا معاملہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سلامتی کی صورتِ حال کے باعث ہماری نقل و حرکت متاثر ہوئی ہے، خصوصاً یونیسکو کے ایسے مِشنوں کے لیے جو تاریخی مقامات پر نظر رکھتے ہیں۔ ہم اپنے منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیےاِن مقامات پر نہیں جاسکتے، جس سے اِس کام پر اثر پڑ رہا ہے۔

گُل کہتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ اگر دریائے سندھ کے کھنڈرات کے آس پاس کی سکیورٹی صورتِ حال بہتر ہو بھی جائے پھر بھی آثارِ قدیمہ دیکھنے والوں کو وہاں تک پہنچنے میں دقتیں درپیش ہیں۔

اُن کے بقول، وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔ موہن جو دڑو تک ہوائی جہاز کی روزانہ پروازکی سہولت میسر نہیں۔ آپ کو یا تو کراچی سے یا پھر سکھر سے آنا پڑتا ہے۔ اور یہ کہ ایئرپورٹ موزون سہولیات سے عاری اور بہت ہی چھوٹا ہے۔

قدیم اہرامِ مصر اور عجائب خانے کو دیکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح مصر کا رُخ کرتے ہیں، جب کہ ہڑپہ کے ایک حکومتی ملازم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہاں بمشکل سالانہ 1000غیر ملکی آتے ہیں۔

خرم قادر، پاکستان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ کلچرل رسرچ کے ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے نزدیک ، اِس کی وجہ مذہب ہے۔

اُن کے بقول، ماضی کے فراعین نہ تو یہودی تھے، نہ عیسائی نہ ہی مسلمان، بلکہ یہ تینوں مذاہب کی یکساں میراث کا معاملہ ہے۔ اور، کیونکہ، مصر کے آثارِ قدیمہ میں یہ کشش موجود ہے اِس لیےسیاح اُس طرف کھچے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کسی مضبوط مذہبی بندھن کے فقدان کے باعث، اور تو اور، خود مقامی لوگوں کی زیادہ تر تعداد کو بھی قدیم وادی سندھ کے آثار سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔

اُن کے بقول، یہ قبل از اسلام دور کی بات ہے لہٰذا اِس کا مشاہدہ کرنے والے اِسے ترجیحی اہمیت کا حامل نہیں سمجھیں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ آثارِ قدیمہ والوں نے وادی سندھ کے اِن دو مرکزی مقامات کے 10فی صد رقبے کی کھدائی کی ہے۔ قادر کہتے ہیں کہ سکیورٹی کے حالات کے علاوہ بھی ایک اور سبب ہے۔

اُن کے بقول محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے پاس فنڈز کی بہت کمی ہے۔ ہم بمشکل نگہداشت یا کیے ہوئے کام کی دیکھ بھال کر پاتے ہیں۔

پیسے کی کمی کے سبب تحفظ سے متعلق یونیسکو جیسے اداروں سے وابستہ لوگ قدرتی آفات اور انسانوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کے مداوے سے متعلق کام کا کچھ حصہ ذمے لے لیتے ہیں۔

گُل کہتے ہیں کہ موہن جو دڑو کے قدیم ورثے کی نگہداشت کو رقوم مہیا ہوتی ہیں کیونکہ اُسے عالمی ورثے کے آثار تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن ہڑپا کا قدیم شہر کو عالمی ورثے کے درجے کی فہرست میں ابھی شامل ہونا ہے، اِس لیے یونیسکو سے اُسے وہ مدد نہیں مل پاتی جو اُسے درکار ہے۔

گُل کا کہنا ہے کہ زمین کی سطح پر نمکیات کا عنصردریا کے نشیب والے علاقے میں دریافت کیے گئے نوادرات کو تباہ کردے گا، اور رقوم کی عدم دستیابی کی صورت ِحال میں بہترین راستا یہ ہوگا کہ کھدائی کامزید کام نہ کیا جائے۔

اُن کے الفاظ میں یہ جیسے بھی ہیں اِنھیں ہاتھ نہ ہی لگایا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ وہ اُسی شکل میں ہی زیادہ محفوظ ہیں۔ کم از کم پانی کے اندر ہی صحیح، آثار موجود تو ہیں۔

قدیم مٹی سے بنے انسانوں اور جانوروں کی شبیہ کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر نوادرات وادی سندھ کی تہذیب کے رہن سہن پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن ابھی تک وادی سندھ کے لوگوں کے نقل و حمل کے طریقوں، مذہب اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود حیران کُن تنظیمی صلاحیتوں کی موجودگی کے پہلو ؤں کواجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔

اب تک قدیم وادی سندھ کا پُر اسرار ماضی یا تو زمین میں مدفون ہے یا پھرزیرِ آب ہے، جسے تلاش کیا جانا ابھی باقی ہے۔

XS
SM
MD
LG