انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں ان دنوں باربار سیلابوں کے باعث پیش آنے والے ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک نئے 20 سالہ شہری منصوبے کی تیاری پر کام ہورہاہے۔
اس نئے شہری منصوبے کے حوالے سے بنائی جانے والی گیلری میں لوگوں کے لیے سب سے زیادہ باعث کشش چیزجکارتا کے مرکز کا ایک چھوٹا سا ماڈل ہے۔
لیکن ماڈل میں پیش کیے جانے والے جکارتا سے شہری مانوس نہیں ہیں۔ شہر کا یہ چھوٹا سا ماڈل صاف اور سرسبزہے ،جس میں بلندو بالا عمارتوں کے درمیان جدید ریلوے لائنیں بچھی ہیں اور شہر سے گذرنے والے دریا، آج کل کی حقیقی گہری مٹیالی نہروں کی بجائے شفاف اور نیلے ہیں۔
اظہار چیدر اس گیلری کے انچارج ہیں۔ انہیں بھی جکارتا کے دوسرے متوسط طبقے کے لوگوں کی طرح مکانوں کے مہنگے کرایوں کی وجہ سے مجبوراً شہر کے وسطی علاقے سے دور دراز ایک مصافاتی آبادی میں منتقل ہونا پڑا ہے اور اب وہ اپنے کام پر آنے جانے کے لیے روزانہ چار سے پانچ گھنٹے تک صرف کرتے ہیں۔ وہ شہر کو جکارتا کے اس نئے ماڈل جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس گیلری میں رکھے گئے اس ماڈل کے ذریعے ہم جکارتا کے مستقبل کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مستقبل میں اس طرز کے جکارتا کا حصول ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خواب کی طرح ہے اور ہم خوابوں ہی سے ترقی کا آغاز کرتے ہیں۔
اظہار کو توقع ہے کہ نیا شہری منصوبہ اس خواب کو حقیقت میں ڈھال دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ 2030ء میں عوامی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔
جکارتا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی منتخب حکومت اس فیصلے کی نگران ہے کہ اگلے 20 سال میں جکارتا کس طرح کا نظر آنا چاہیے۔
شہری منصوبہ بندی کے نگران ڈپٹی گورنراحمد ہرجادی کہتے ہیں کہ مرکزیت کے خاتمے سے متعلق نئے قوانین پر عمل کرتے ہوئے شہر ی انتظامیہ ایک ایسا تفصیلی منصوبہ تیار کرے گی جس میں عوام کی زیادہ سے زیاد ہ شرکت ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری حکومت اور ہمارے ادارے کے لیے سیکھنے کا ایک مرحلہ ہے لیکن پالیسی کی سطح پر ،دستاویزی سطح پر ہم نے اسے تیار کرچکے ہیں۔
اگرچہ اس منصوبے کی تکمیل میں بہت سی مشکلات درپیش ہوں گی تاہم اس سے جکارتا کی سڑکوں پر روزانہ کی بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
تقریباً 30 سال سے جکارتا میں آبادی میں اضافے اور شہر کی تیز تر پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ بے روزگار سنیاگا جیسے شہریوں نے اس افراتفری سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس بارے میں کہنے والا کون ہوں کہ اگلے 20 سال میں جکارتا کو کیسا ہونا چاہیے۔ ان کا کہناہے کہ شہر پرامن ہے اور جب تک کوئی مجھے پریشان نہیں کرتا تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سنیاگا جیسا یہ رویہ جکارتا کے شہریوں میں کئی عشروں سے عام ہے۔ شہر میں روزمرہ زندگی کے مسائل کی رفتار کم کرنے سے متعلق یکے بعد دیگرے متعدد منصوبے ، ناقص عمل درآمد اور بڑے پیمانے کی بدعنوانی کے باعث ناکام ہوچکے ہیں۔
لیکن ایک شہری منصوبہ سازمارکو کوسوماویدجائیا کہتے ہیں کہ اب وہ دور تمام ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انہیں کسی عمل میں شامل نہیں کیا جارہاتو وہ لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔ اور آپ کسی بھی شہر کو زیادہ عرصے تک اس طرح تعمیر نہیں کرسکتے۔ کیونکہ جب آپ کوئی شہر تعمیر کرتے ہیں تو آپ شہریوں اور ایک معاشرے کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہمیں منصوبہ بندی کےپرانے رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر لوگ بنیادی فیصلوں میں شرکت کریں گے تو وہ اس منصوبے کو اپنا منصوبہ سمجھیں گے اور اس طرح وہ اس کی تکمیل اپنی ایک ذمہ داری سمجھیں گے۔
مارکو، اس پریشر گروپ میں شامل ہیں جوجکارتا 2030ء کے شہری منصوبے میں اپنی آوازشامل کرنا چاہتا ہے۔ ایلیسا سوتانو جاجا اس گروپ کی کوآرڈی نیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پہلے 2005ء کے اس شہری منصوبے کے حوالے سے بے وقوف بن چکی ہیں جس کے نتیجے میں شہر میں بہت سے سرسبز علاقے ختم کردیے گئے تھے اور ان کی جگہ بڑے بڑے کاروباری مراکز وغیرہ قائم کردیے گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب میں دوبارہ بے وقوف نہیں بننا چاہتی۔
جکارتا میں بمشکل ہی کوئی ایسا ہفتہ گذرتا ہے کہ جب شہر کے مرکز میں کوئی مظاہرہ نہ ہورہاہو۔ لیکن دنیا کی اس تیسری سب سے بڑی جمہوریت کے شہری اب پالیسی سازی کے عمل میں شرکت کی تیاریوں کے ذریعے اپنے خدشات کے اظہار کے ایک نئے طریقے کا آغاز کررہے ہیں۔ جکارتا کا شہری منصوبہ اس نئے عمل کی جانب پہلا قدم ہے جس میں شہری اور حکومت دونوں شامل ہیں۔