انڈونیشیا کے دور افتادہ جزیرے سمبا میں ان دنوں ایک سالانہ روائتی تہوار پاسولا کی تقریبات جاری ہیں۔ اس تہوار کا نمایاں پہلو ایک قدیم کھیل ہے جو گھوڑے پر سوار ہوکر ایک برچھی نما ہتھیار سے کھیلا جاتا ہے۔ فصلوں کی کاشت کے موقع پر ہونے والے اس تہوار میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد مختلف گروپوں کی شکل میں گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہوکر لڑائی نما کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کھیل کے لیے اچھا شہسوار ہونا اور برچھی نما ہتھیارکے استعمال میں مہارت رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کھیل کے دوران اکثر اوقات کئی کھلاڑی زخمی ہوجاتے ہیں۔ مقامی روایت کے مطابق ان کے خون سے فصل خوب اچھی ہوتی ہے۔
یہ ذکر ہے تہوار شروع ہونے سے ایک رات پہلے کا، وینوکاکا وادی میں ، موم بتیوں کی روشنی میں دو شہوار ایک مرغی کو مارنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک کانام پوبو ڈانانگ ہے جو پچاس سال کے پیٹے میں ہے جب کہ دوسرا شخص ٹاگو ہنانگ ہے ، جو اس سے لگ بھگ دس سال چھوٹا ہے۔ مرغی کو ہلاک کرنے کے بعد وہ اس کی انٹتریوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ جس سے وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں آیا کل ہونے والے مقابلے میں خون بہے گا، موت کا سامنا ہوگا یا پھر کامیابی حصے میں آئے گی ۔مگر ان کے چہروں پر خوشی اور اطمینان ہے۔ کیونکہ شگون اچھا نکلا ہے۔
بالی اور آسٹریلیا کے درمیان واقع سمبا کا جزیرہ، ایک زمانے میں خون ریز قبائلی جنگوں، غلامی اورسر قلم کرنے کے حوالے سے بدنام تھا۔ اس جزیرے کا پاسولا تہوار ، خونی ماضی کی ایک جدید شکل ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینوں میں اس تہوار کے لیے سینکڑوں شہسوار میدان میں اترتے ہیں۔ یہ موسم جزیرے میں فصلوں کی کاشت کا موسم ہے۔
کھیل کے دوران گھوڑوں پر سوار دو ٹیمیں، اپنی برچھیاں لہراتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹتی ہیں۔ اس کھیل میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ اور اس کھیل کا واحد مقصد خون بہانا ہوتا ہے۔
کئی عشرے قبل تک کھیل میں حصہ لینے والوں کی برچھیاں تیز دھار ہوتی تھیں مگر اب سرکاری قوانین کے تحت کھلاڑی ، کھیل میں صرف کند اور ہلکی پھلکی برچھیاں استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگ زخمی ہوتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی کھلاڑی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
پوبوڈانانگ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں سب سے قابل فخر بات اپنے مد مقابل کو ہلاک کرنا ، یا مرنے کی کوشش کرنا ہے ۔مگر اس وادی میں 1987ء کے بعد سے کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ جو شہسوار اس کھیل میں کسی کو ہلاک کردیتا ہے یا اس کے ہاتھوں خود مارا جاتا ہے، اس کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اور جب زمین پر کسی کا بھی خون گرتا ہے، تو اس سے زمین کی زرخیری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ڈو گاجی کا شمار وانوکاکا وادی کے بزرگوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تہوار کی تاریخ کا فیصلہ روائتی راہب کرتے ہیں۔ رات کے وقت سمندر سےپراسرار رنگوں کے کرم نما کیڑوں کےباہر نکل کر مقامی ساحل پر آنے کو اس لڑائی نما کھیل کے آغاز کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاسولا تہوار کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ اس وادی کی ایک عورت قریبی علاقے کوڈی کے ایک مرد کے ساتھ بھاگ گئی۔ بعدازاں تصفیے کے بعد دلہن کی قیمت ادا کردی گئی اور لڑائی کا خطرہ ٹل گیا۔ دونوں قبیلوں نے اس خوشی میں یہ نقلی جنگ لڑی ۔ ا ور اس طرح یہ تہوار شروع ہوگیا۔
میدان سے باہر یہ کھیل ایک حقیقی جنگ جیسا منظر پیش کرتا ہے۔ شہسوار ہوا میں اپنی برچھیاں لہراتے ہوئے گروپوں کی شکل میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اگرچہ اس لڑائی میں اکثر وار خالی جاتے ہیں ، لیکن جب کوئی وار نشانے پر بیٹھتا ہے تو تماشائی خوب تالیاں بجاتے ہیں۔ بعض دفعہ کوئی کھلاڑی تماشائیوں میں بھی گھس جاتا ہے جس سے وہ خوف زدہ ہوکر ادھر اُدھر بھاگنے لگتے ہیں۔
امن و امان قائم رکھنے کے لیے مقامی پولیس کے سربراہ نیومن ٹنڈا کے پاس ڈنڈوں، بندوقوں اور اشک آور گیس سے مسلح ، ڈیڑھ سوسے زیادہ پولیس اہل کار موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج دنگا فساد پر آمادہ ہجوم پر قابو رکھنا ہے۔پچھلے ہفتے لامبویا میں تماشائیوں نے اشتعال میں آکر پر پتھراؤ شروع کردیا تھا۔
یہ لڑائی طوفان بادوباراں کی آمد تک جاری رہتی ہے۔
جب گھڑ سوار اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ، تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنے کھلاڑی اور گھوڑے زخمی ہوئے ہیں۔ان کے جسموں سے ٹپکنے والا خون سمبا کی زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور پھر لوگوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھتے ہیں کہ اس سال فصلیں خوب پھلیں پھولیں گی۔