رسائی کے لنکس

طبی عملہ عالمی وبا سے لڑتے لڑتے تھک گیا، شہری احتیاط کریں: ایران


ایران نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل کریں کیونکہ یہ ایک مہلک وائرس ہے اور اتوار کے روز اس نے تہران میں 216 زندگیاں نگل لیں۔

ایران کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ طبی عملہ مہلک وبا کے خلاف لڑائی میں تھک چکا ہے، اس لیے اب یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حفاظتی ضابطوں پر سنجیدگی سے عمل کر کے طبی عملے کا بوجھ بٹائیں۔

ایران میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت 19 فروری کو ہوئی تھی جس سے مشرق وسطی میں تیزی سے پھیلنے والی اس مہلک وبا کی شروعات ہوئی۔

ایران میں کرونا وائرس میں تیزی جون سے آئی ہے اور پچھلے ہفتے سے وہاں ہر روز 200 کے لگ بھگ اموات ہو رہی ہیں جب کہ منگل کے روز عالمی وبا میں مبتلا 229 مریض اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان سیما سادت لاری نے اتوار کے روز ٹیلی وژن پر ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرونا انفکشن اور اس کے خلاف لڑنے والے طبی عملے کا تھک جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم وبا کے پھیلاؤ کو روک کر طبی عملے کی مدد کر سکتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم گائیڈ لائنز پر عمل کریں، مثلاً چہرے پر ماسک پہننا، سماجی فاصلہ رکھنا اور دن میں کئی بار ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا وغیرہ۔

اس مہینے کے شروع میں ایران نے کہا تھا کہ اس کے طبی عملے کے 5000 سے زیادہ کارکنوں کو کرونا وائرس لگ چکا ہے جن میں سے 140 اہل کار اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے۔

لاری نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 216 اموات کے بعد اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 15700 سے بڑھ گئی ہے۔

ایران میں پچھلے ایک روز کے دوران مزید 2333 افراد میں کرونا انفکشن کی تصدیق ہوئی، جس سے متاثرین کی مجموعی تعداد 291172 ہو گئی ہے۔

عہدے داروں نے بتایا ہے کہ ملک کے 31 صوبوں میں سے 12 میں وبا ریڈ سکیل پر پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 13 صوبے الرٹ کیٹیگری میں ہیں۔ الرٹ سے مراد ریڈ کیٹیگری کے قریب ترین کا درجہ ہے۔ جب کہ ریڈ وبا کی ہلاکت خیزی اور پھیلاؤ کا سب سے اونچا درجہ ہے۔

حکام نے عمارتوں کے اندر عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا ہے۔ جب کہ تہران سمیت سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن جیسی پابندیاں دوبارہ لگانے کی اجازت دے دی ہے۔

ایران نے اپنی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اپریل میں بندشوں کی پابندیاں اٹھا لیں تھیں۔

XS
SM
MD
LG