ایران میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سامنا آنا شروع ہو گئے ہیں اور ابتدائی طور پر بظاہر اصلاح پسند اس میں کامیابی سمیٹتے دکھائی دیتےہیں۔
تاہم یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ 290 کے ایوان میں اصلاح پسند، قدامت پسند اور سخت گیر موقف رکھنے والے سیاسی حلقوں میں سے کوئی بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں شاید کامیاب نہ ہوسکے۔
سرکاری ٹی وی نے اتوار کو بتایا کہ ملک میں سماجی آزادی اور مغرب سے تعلقات کو بہتر بنانے کے خواہاں اصلاح پسندوں نے تہران سے تمام 30 نشستیں حاصل کر لی ہیں۔
جمعہ کو پارلیمنٹ کے علاوہ مجلس خبرگان رہبری کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے جن کی گنتی جاری ہے اور توقع ہے کہ پیر تک حتمی نتائج سامنے آجائیں گے۔
صدر حسن روحانی اور سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کو مجلس خبرگان رہبری میں بھی اکثریت حاصل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
80 رکنی یہ ادارہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے معاملات کا نگران ہونے کے ساتھ ساتھ نئے رہبر اعلیٰ کا بھی انتخاب کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
یہ انتخابات گزشتہ سال ایران کے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے اور اس کے نتیجے میں ملک پر برسوں سے عائد بعض اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہوئے ہیں اور انھیں ایران کے مستقبل کے لیے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
ہفتہ کو ہی سرکاری ذرائع ابلاغ نے صدر روحانی کے حوالے سے بتایا تھا کہ انتخابات نے ان کی حکومت کی ساکھ اور اثرورسوخ کو مزید تقویت دی ہے۔
"مقابلہ ختم ہوگیا ہے۔ اب ایران کی مقامی صلاحتیوں اور بین الاقوامی مواقع کی بنیاد پر ملک کی اقتصادی ترقی کا نیا باب کھولنے کا وقت ہے۔"