رسائی کے لنکس

اہواز حملے کے جواب میں ایران کا شام میں میزائل حملہ


ایران کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تصویر جس میں شام میں شدت پسندون کے ٹھکانوں پر میزائل فائر کیا جا رہا ہے۔
ایران کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تصویر جس میں شام میں شدت پسندون کے ٹھکانوں پر میزائل فائر کیا جا رہا ہے۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملوں کا نشانہ مشرقی شام میں واقع ان "تکفیری دہشت گردوں" کےٹھکانے تھے جنہیں امریکہ اور علاقائی طاقتوں کی مدد حاصل ہے۔

ایران کی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے ایران کے شہر اہواز میں ایک فوجی پریڈ پر ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر ملوث شامی جنگجووں کے ٹھکانوں پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔

'پاسدارانِ انقلاب' کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق حملہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب دو بجے کیا گیا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملوں کا نشانہ مشرقی شام میں واقع ان "تکفیری دہشت گردوں" کےٹھکانے تھے جنہیں امریکہ اور علاقائی طاقتوں کی مدد حاصل ہے۔

ایران کی شیعہ حکومت "تکفیری دہشت گردوں" کی اصطلاح سنی شدت پسندوں – بشمول داعش اور اپنے سرحدی علاقوں میں سرگرم سنی عرب علیحدگی پسندوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ایرانی فوجی ذرائع کے مطابق بیلسٹک میزائل ایران کے مغربی صوبے کرمان شاہ سے فائر کیے گئے جو عراق کی فضائی حدود سے گزرے اور شام کے جنوب مشرقی شہر ابو کمال کے نزدیک شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

پاسدارانِ انقلاب کے بیان کے مطابق کل چھ میزائل فائر کیے گئے جنہوں نے 570 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے شام میں اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔

ایرانی حکام کے مطابق میزائل حملوں کے بعد سات ایرانی ڈرونز نے بھی شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔

ایران کے سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں کئی شدت پسند ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن شامی حکومت نے تاحال اس حملے کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ حملہ کس باغی تنظیم کے ٹھکانوں پر کیا گیا۔

ابو کمال کا شہر شام کے صدر بشار الاسد کی افواج کے زیرِ انتظام ہے تاہم حالیہ چند ہفتوں کے دوران اس شہر پر شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوکئی بار حملہ کرچکےہیں۔

اہواز حملے کی ذمہ داری علاقے میں آباد ایرانی عربوں کی ایک علیحدگی پسند تنظیم 'اہواز قومی مزاحمت' اور داعش دونوں نے قبول کی تھی۔ لیکن دونوں گروہوں نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا تھا جس سے ان کے دعوے کی تصدیق ہوسکے۔

اس حملے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں پاسدارانِ انقلاب کے 12 اہلکار بھی شامل تھے۔

ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد حاصل تھی۔

دونوں خلیجی ملک ایران کے اس الزام کی تردید کرچکے ہیں۔

ایک سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے کہ ایرانی فوج نے اپنی سرزمین سے شام میں مبینہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں تہران میں ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ علی خمینی کے مزار اور ایرانی پارلیمان پر حملے کے بعد بھی پاسدارانِ انقلاب نے شام میں داعش کے مبینہ ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG