رسائی کے لنکس

’’ایران نے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا‘‘


وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ، پینٹے گان کے چوٹی کے انٹیلی جنس افسر نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ایران نے نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے ۔لیکن ڈیفنس انٹیلی جینس ایجنسی یا DIA کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے، اس پر بڑی حد تک تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔

لیفٹیننٹ جنرل رونالڈ برجس Ronald Burgess نے کہا ہے کہ 2007 کے متنازع نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ یا NIE میں جو بنیادی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا وہ اب بھی درست ہے، یعنی یہ کہ ایران نے اب تک نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران کے لیڈروں کے عزائم کیا ہیں، یا ملک کی سیاسی قیادت کے اندر سیاسی کشمکش کی سطح کیا ہے، اس کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایران کے لیڈروں کے طرز عمل اور ان کے بیانات سے مغربی ملکوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ’’حقیقت یہ ہے کہ ایران کھری بات نہیں کہہ رہا ہے ۔ وہ جو چاہیں کہتے رہیں۔ میں تو انٹیلی جنس پروفیشنل ہوں۔ میرا کام تو تصدیق کرنا ہے ۔ ایرانی لیڈر جو کچھ کہتے ہیں ہم مسلسل اس کی تصدیق میں لگے رہتے ہیں۔لیکن وہ جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں اس سے معاملات مثبت سمت میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔‘‘
2007 کا National Intelligence Estimate ، امریکہ کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے متفقہ فیصلے پر مبنی تھا ۔ تمام ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران نے نیوکلیئر اسلحہ کے ڈیزائن کا کام 2003 میں روک دیا تھا۔ اس رپورٹ سے ایک زبردست بحث چھڑ گئی ۔ ناقدین نے الزام لگایا کہ NIE میں جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ غلط ہے اور ایران واضح طور پر نیوکلیئر طاقت بننے کی راہ پر چل رہا ہے ۔ حال ہی میں کچھ ایسی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جن میں بعض گمنام ذرائع کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ صدر باراک اوباما کے بہت سے مشیر ایران کے بارے میں انٹیلی جنس کے اندازوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔

ایران مسلسل یورینیم کی افژودگی کے کام میں مصروف ہے ۔ نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری میں یہ انتہائی اہم قدم ہے لیکن ایران مُصر ہے کہ وہ یورینیم کو نیوکلیئر توانائی پیدا کرنے کے پُر امن مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔
نیوکلیئر مسئلے پر ایران کے ساتھ مغربی ملکوں کے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔اکتوبر میں ایسا لگتا تھا کہ ایران کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا ہے اور وہ اپنا یورینیم افژودگی کے لیے کسی تیسرے ملک بھیجنے کو تیار ہے ۔ لیکن پھر ایران پیچھے ہٹ گیا اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔

جنرل برجس کہتے ہیں کہ ایران کا طرزعمل بالکل ایسا ہے جیسے کسی بازار میں سودے بازی کی جائے۔ایران سمجھتا ہے کہ پیچھے ہٹ جانے سے ممکن ہے اسے اور زیادہ اچھا سودا مل جائے ۔ ان کا کہا ہے’’میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات ہوتی ہے کہ یا تو انھوں نے جو تجویز میز پر رکھی ہے، بالآخر اسے قبول کر لیا جائے گا یا بات ان کے حق میں اور آگے بڑھے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک واضح مقصد یہی ہوتا ہے۔‘‘
تہران میں فیصلے کرنے کے عمل کو جتنا خفیہ رکھا جاتا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک میں اصلاحات کی جو تحریک چل رہی ہے اس سے حکومت کے نیوکلیئر عزائم کس حد تک متاثر ہوں گے۔ لیکن برجس کہتے ہیں کہ یہ تحریک بڑی سخت جان ثابت ہوئی ہے اور اسے کچلنا مشکل ہو گا۔’’ایران میں اصلاحات کی تحریک کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ تحریک اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مجھے ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ اس تحریک کا خاتمہ کر دیا گیا ہے یا یہ مکمل طور سے حکومت کے کنٹرول میں آ گئی ہے ۔ان کی آواز اب بھی سنی جا رہی ہے اور وہ اب بھی لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے جس پر ایران میں ہمیں نظر رکھنی ہو گی ۔

اوباما انتظامیہ نے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی حمایت میں احتیاط سے کام لیا ہے تا کہ ایرانی حکومت کی نظر میں احتجاج کرنے والوں کی پوزیشن مشتبہ نہ ہو جائے ۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت بعض نئی پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے جن کا اطلاق خاص طور سے ایران کے پاسداران انقلاب پر ہو گا۔ پاسداران ِ انقلاب نہ صرف یہ کہ احتجاج کرنے والے ایرانیوں کوکچلنے میں پیش پیش رہے ہیں بلکہ انھوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG