رسائی کے لنکس

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر اتفاق


ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں شریک رہنما معاہدے کے بعد ویانا میں
ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں شریک رہنما معاہدے کے بعد ویانا میں

جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یہ سب کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ "آج اس معاملے پر امید ٹوٹ سکتی تھی لیکن اب ہم امید کے ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔"

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فریڈریکا موگارینی نے ایران کے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کے آخری اجلاس کے بعد منگل کو ایک پریس کانفرنس میں معاہدے کا باضابطہ اعلان کیا۔

یہ مذاکرات ایک دہائی سے زائد عرصے سے وقتاً فوقتاً جاری تھے اور ویانا میں حتمی مذاکرات امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے درمیان مسلسل تین ہفتے تک جوبیس گھنٹے جاری رہے، جس میں بعد ازاں دیگر عالمی طاقتوں کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہو گئے تھے۔

امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سمیت چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے وزرائے خارجہ کا آخری اجلاس منگل کی صبح ویانا میں یونائٹڈ نیشنز سینٹر میں شروع ہوا جس سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فریڈریکا موگارینی نے مختصر بیایانات میں معاہدہ طے پانے کا ذکر کیا۔

جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یہ سب کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ "آج اس معاملے پر امید ٹوٹ سکتی تھی لیکن اب ہم امید کے ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔"

معاہدے کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا ہے جس کے عوض اس پر سے عائد پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹا لی جائیں گی۔

ان پابندیوں کے باعث ایران کی تیل کی برآمدات کم ہوئی ہیں اور اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

معاہدہ طے پانا امریکہ کے صدر براک اوباما اور ایران کے صدر حسن روحانی کی بڑی فتح ہے۔ حسن روحانی دو سال قبل اس وعدے پر ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے کہ وہ ایران کی سفارتی تنہائی کو کم کریں گے۔

دونوں صدور کو اپنے ملک میں سخت گیر مؤقف رکھنے والے طاقتور حلقوں کی جانب سے شکوک و شبہات اور مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اکثر ایک دوسرے کو ’’شیطان عظیم‘‘ اور ’’بدی کا محور‘‘ کہہ کر پکارا جاتا رہا ہے۔

یہ معاہدہ ایران کے مغربی اقوام کے ساتھ تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جنہیں شبہ ہے کہ ایران اپنے سول جوہری پروگرام کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کرتا رہا ہے، مگر ایران اس کی تردید کرتا رہا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں میں جن نکات پر سب سے زیادہ اختلاف رہا ہے ان میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر 2006 سے جاری پابندی فوری ہٹانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

ایران کو ہتھیار فروخت کرنے والے ملک روس نے کھل عام اس نکتے پر ایران کی حمایت کی ہے۔

تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان وزارتی سطح پر دو ہفتے سے جاری مذاکرات کے طویل دور میں کامیابی سے ایران کے جوہری پروگرام پر 12 سالہ تعطل ختم ہو سکے گا۔

XS
SM
MD
LG